شیخ حسینہ کے حق میں دھاندلی کا الزام، سابق چیف الیکشن کمشنر گرفتار
بنگلہ دیش میں سابق چیف الیکشن کمشنر کے ایم نورالہدیٰ کو شیخ حسینہ کے حق میں مبینہ انتخابی دھاندلی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا، مشتعل عوام کے ہاتھوں تشدد کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کیا گیا۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی عدالت نے سابق چیف الیکشن کمشنر کو وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے حق میں مبینہ انتخابی دھاندلی میں کردار ادا کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا ہے۔
77 سالہ کے ایم نورالہدیٰ کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیا گیا ہے تاکہ اُن سے مزید تفتیش کی جاسکے۔
یہ کارروائی اس واقعے کے ایک دن بعد عمل میں آئی جب ایک مشتعل ہجوم نے اُن کے گھر پر دھاوا بول دیا، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں پولیس کے حوالے کر دیا۔
اتوار کے روز اپوزیشن کی طاقتور جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے نورالہدیٰ اور دیگر سابق الیکشن کمشنرز کے خلاف مقدمہ درج کروایا، جن پر ماضی کے انتخابات میں شیخ حسینہ کے حق میں دھاندلی کرنے کا الزام ہے۔
واضح رہے کہ حسینہ واجد کا 15 سالہ اقتدار اگست 2024 میں ایک عوامی بغاوت کے نتیجے میں ختم ہوگیا تھا۔
مقدمہ درج ہونے کے چند گھنٹوں بعد ایک ہجوم نے ڈھاکا میں نورالہدیٰ کے گھر پر حملہ کیا، وہ انہیں گھسیٹ کر سڑک پر لائے، ان کے گلے میں جوتوں کا ہار ڈالا اور تشدد کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کر دیا۔
نگراں حکومت نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔
جاری کردہ سرکاری بیان میں کہا گیا کہ کسی ملزم پر حملہ کرنا اور اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ قانون کی حکمرانی کے منافی اور ایک فوجداری جرم ہے۔
بعد ازاں پولیس نے کے ایم نورالہدیٰ کو عدالت لے جاتے ہوئے ان کی حفاظت کے لیے انہیں ہیلمٹ پہنایا۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی نورالہدیٰ پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’آئین و سلیش کیندر‘ سے وابستہ ابو احمد فیض القبر نے ایک بیان میں کہا کہ یہ قانون کی حکمرانی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
استثنیٰ کی ثقافت
اسی دوران بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے دورِ حکومت کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کرنے والے حکومتی کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ استثنیٰ کی وہی ثقافت اب بھی برقرار ہے۔
کمیشن کے مطابق وہ ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی چھان بین کررہا ہے جو شیخ حسینہ کے 15 سالہ اقتدار میں ہوئیں، جن میں سیاسی مخالفین کے ماورائے عدالت قتل اور درجنوں افراد کی غیر قانونی اغوا و گمشدگی شامل ہیں۔
یہ کمیشن نگراں سربراہ محمد یونس نے قائم کیا تھا، جو آئندہ سال کے اوائل میں متوقع عام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری کشمکش کے دوران شدید دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔
محمد یونس کا کہنا ہے کہ انتخابات اپریل 2026 کے اوائل میں ہوں گے، جو جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش (تقریباً 17 کروڑ آبادی والے ملک) میں، طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد پہلا انتخاب ہوگا۔
بنگلہ دیش میں فوجی بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے اور فوج آج بھی ملکی سیاست میں ایک مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ کے ایک حصے میں کہا کہ بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیاں محض چند افراد کی انفرادی غلطی نہیں تھیں بلکہ یہ ایک سیاسی نظام کا حصہ تھیں، جس نے ان جرائم کی اجازت دی، انہیں معمول کا درجہ دیا اور بعض اوقات ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تشویشناک امر یہ ہے کہ 5 اگست 2024 کو حکومت کی تبدیلی کے باوجود یہ استثنیٰ کی ثقافت تاحال جاری ہے۔
کمیشن اب تک عوامی لیگ کے دورِ حکومت کے دوران جبری گمشدگیوں کے 250 سے زائد واقعات کی تصدیق کر چکا ہے۔
کمیشن کے سربراہ معین الاسلام چوہدری نے رواں ماہ کہا کہ ان جرائم کی ذمہ داری انفرادی افسران پر عائد ہوتی ہے جو جبری گمشدگیوں میں ملوث تھے، تاہم بطور ادارہ فوج اس میں براہِ راست شامل نہیں تھی۔
رواں ماہ کے آغاز میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر عالمی تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان میں سیکیورٹی اداروں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کریں، تمام حراستی مراکز تک بلا رکاوٹ رسائی دیں اور زیرِ حراست یا لاپتہ افراد سے متعلق تمام ریکارڈ فراہم کریں۔
شیخ حسینہ کے دور میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئیں، ان پر عدلیہ اور سول سروس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور جانبدارانہ انتخابات کرانے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے۔
77 سالہ شیخ حسینہ اس وقت بھارت میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہیں، جہاں وہ گزشتہ سال معزولی کے بعد فرار ہو گئی تھیں۔
انہوں نے ڈھاکا واپس آکر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے سے انکار کر دیا ہے، ان کے خلاف غیر حاضری میں مقدمہ جاری ہے۔