نقطہ نظر

انتظامی غفلت یا انتباہی نظام میں خامی، سانحہ سوات کا اصل ذمہ دار کون؟

دریائی طغیانی میں 13 جانیں ضائع ہونے بعد ڈان نے حکام اور ماہرین سے بات کی اور غور کیا کہ سانحے کو روکنے کے لیے کیا کیا جا سکتا تھا۔

وہ ناشتہ کرنے اور شاید دریائے سوات کے کنارے چند یادگار لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں عکس بند کرنے آئے تھے۔ لیکن چند لمحوں میں پُرسکون پانی بپھر گیا اور بے بس تماشائیوں کی آنکھوں کے سامنے پورے خاندان کو بہا لے گیا۔

جیسے ہی دریا کے پانی کی سطح بڑھتی گئی، یہ 14 سیاحوں کے نیچے موجود چٹان کو کمزور کرتا گیا کہ جس پر مرد خواتین اور بچے اپنی معدوم ہوتی امیدوں کے ساتھ خوفزدہ حالات میں کھڑے تھے۔

سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان مینگورہ کے نواح میں فضاگھٹ پکنک پوائنٹ پر واقع ریلیکس ہوٹل پر ناشتہ کرنے کے لیے رکا تھا۔

ناشتے کے بعد وہ تصاویر کے لیے ندی کنارے اتر گئے۔ سیلفی اور ویڈیوز بناتے ہوئے پانی کی سطح اچانک بڑھ گئی اور انہوں نے خود کو ایک نسبت اونچے ٹیلے پر محصور پایا جو کہ دریا میں کھدائی کے کام کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔

دریا تیزی سے ان کے پیروں کے نیچے موجود زمین کے چھوٹے ٹکڑے کو بہا لے گیا۔ سرمئی بادلوں کے سائے میں کھڑے لوگوں نے ان مناظر کو کیمرے میں قید کیا کہ جس میں خاندان کا ایک ایک فرد سیلاب کی نذر ہوتا گیا۔ چند لمحات میں تمام افراد ڈوب گئے۔

انہیں بچانے کے لیے محض 100 میٹرز کا فاصلہ طے کرنا تھا لیکن یہ راستہ ناقابلِ رسائی ثابت ہوا۔

اس واقعے نے عوام میں غصے کی آگ کو بھڑکا دیا ہے اور صوبائی حکومت کے ہنگامی ردعمل، قبل از وقت وارننگ کے نظام اور آفات سے نمٹنے کی تیاری کے بارے میں سنگین سوالات کو جنم دیا ہے۔

اس حوالے سے ڈان نے حکام اور ماہرین سے بات کی تاکہ یہ پتا لگایا جاسکے کہ سوات میں واقعتاً کیا ہوا اور حکومت کے کردار، ہنگامی ردعمل کی تاثیر، تیاری اور قبل از وقت انتباہ کے نظام کا جائزہ لیا جاسکے۔

اس روز کیا ہوا؟

عینی شاہدین کے مطابق متاثرہ خاندان 2 گھنٹوں تک محصور رہا مگر ان کی مدد کو کوئی نہیں آیا جبکہ حکام کی جانب سے اس معاملے پر متضاد دعوے سامنے آئے ہیں۔

ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل شاہ فہد نے ڈان کو بتایا کہ ہوٹل کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا ہے کہ سیاح صبح 9 بج کر 37 منٹ کے قریب دریا کے کنارے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے کہا، ’اس وقت دریا خشک تھا لیکن چند منٹوں میں پانی میں اضافہ ہوا۔ صبح 9 بج کر 45 منٹ تک، دریا کی سطح میں ڈرامائی اضافہ ہوا‘۔

شاہ فہد نے کہا کہ مدد کے لیے پہلی کال صبح 9 بج کر 49 منٹ پر موصول ہوئی۔ تاہم یہاں ایک سنگین غلطی ہوئی۔ آپریٹر ایمرجنسی کی نوعیت و سنگینی کو سمجھ نہیں پایا اور اس نے اسے ریسکیو آپریشن کے بجائے طبی مسئلے کے طور پر لیا۔

ایک ایمبولینس روانہ کی گئی جو صبح 9 بج کر 56 منٹ پر پہنچی۔ جب ریسکیو حکام کو احساس ہوا کہ انہیں مختلف صورت حال کا سامنا ہے تو انہوں نے ایک مختلف گاڑی کی درخواست کی۔ ایک ڈیزاسٹر ریسکیو گاڑی جس میں جنریٹر، کشتیاں اور دیگر سامان موجود تھا، جائے وقوع پر روانہ کیا گیا لیکن وہ بہت دیر سے پہنچی۔

انہوں نے کہا کہ یہ جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں کہ آیا تاخیر آپریٹر کی غلطی کی وجہ سے ہوئی یا کال کرنے والا ایمرجنسی کی نوعیت کو صحیح طریقے سے بیان کرنے میں ناکام رہا۔

لیکن سرکاری ریکارڈ میں بھی معمولی تغیرات ہیں۔ ڈان کی معلومات کے مطابق، سوات کی ضلعی انتظامیہ کو صبح 9 بج کر 55 منٹ پر پہلا الرٹ موصول ہوا اور ریسکیو 1122 کی ایمبولینس صبح 10 بج کر 7 منٹ پر جائے وقوع پر پہنچی۔ ریسکیو کی کوششیں صبح 10 بج کر 15 منٹ پر فلائی ٹیوبز کے ذریعے مقامی طور پر بنائے گئے بیڑے کے ساتھ شروع ہوئیں۔

صبح 10 بج کر 36 منٹ تک، دریا ٹیلے کو بہا لے گیا اور محصور سیاح دریا میں بہہ گئے۔ ویڈیو فوٹیج میں ایک بیڑا دکھایا گیا ہے جسے مقامی طور پر ’جلائی‘ کہا جاتا ہے جو ایک دوسرے سے چمٹے 4 افراد کے قریب پہنچ رہا ہے۔ سرکاری حکام کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے 3 کو بچا لیا گیا ہے۔

کئی عہدیداروں اور ریسکیو ماہرین نے ڈان کو بتایا کہ دریائے سوات کی پتھریلی، تیز بہنے والی فطرت اسے غوطہ خوروں یا موٹر بوٹس کی خدمات کے لیے نامناسب بناتی ہے۔ ریسکیو 1122 کے پاس ایک رسی پھینکنے والی بندوق ہے جو 100 میٹر تک رسی کسنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اسے استعمال نہیں کیا جا سکا کیونکہ دریا کے اس پار کوئی اینکر پوائنٹ نہیں تھا۔

ہیلی کاپٹر کیوں نہیں بھیجا گیا؟

خیبرپختونخوا حکومت کے ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر سے بچاؤ پر غور کیا گیا تھا لیکن خراب موسم کی وجہ سے اسے نہیں بھیجا گیا۔

ایمرجنسی رسپانس کے ایک ماہر نے ڈان کو بتایا کہ بحران سے نمٹنے کے لیے 95 فیصد تیاری ہوتی ہے جبکہ صرف 5 فیصد ردعمل ہوتا ہے۔ ’آپ غوطہ خوروں کو اس وقت تک نہیں بھیج سکتے کہ جب تک زندہ رہنے کا امکان زیادہ نہ ہو اور اس معاملے میں ایسا نہیں تھا‘۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ سوات نے 2010ء کے سیلاب کے بعد متعدد سیلاب دیکھے ہیں لیکن کمیونٹی بیسڈ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ (سی بی ڈی آر ایم) کے حوالے سے بہت کم کام کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس چترال کی کالاش وادیوں میں ایسے نظام موجود ہیں۔

انہوں نے کہا ’2015 میں بمبوریٹ وادی کو شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑا لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ بالائی علاقوں کے دیہاتیوں نے نیچے کی جانب جانے والوں کو خبردار کیا تھا۔ سی بی ڈی آر ایم یہی ہے‘۔

قبل از وقت انتباہی نظام

ضلع سوات 5 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی آبادی 26 لاکھ ہے۔ محکمہ موسمیات کی یہاں تین موسمی رسد گاہیں ہیں جوکہ سیدو شریف، مالم جبہ اور کالام میں واقع ہیں۔

23 جون کو خیبرپختونخوا کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے 25 جون تک آنے والی مغربی لہر کے بارے میں ایڈوائزری وارننگ جاری کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ 25 جون کو لہر میں شدت آنے کا امکان ہے جس کی بنا پر حکام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔

محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 27 جون کو سیدو شریف میں 46 ملی میٹر، مالم جبہ میں 42 ملی میٹر اور کالام میں 4 ملی میٹر بارش ہوئی۔ خوازہ خیلہ میں محکمہ آبپاشی کی جانب سے لگائے گئے ریور گیجز سے صبح پانی کا اخراج 6 ہزار 738 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

محکمہ آبپاشی کے ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ وادی کالام مون سون زون سے باہر ہے جوکہ بحرین، خوازہ خیلہ اور مٹہ تحصیلوں تک پھیلا ہوا ہے۔

محکمہ آبپاشی کے ایک اور اہلکار نے بتایا کہ اچانک سیلاب کا آغاز خوازہ خیلہ اور مٹہ تحصیلوں میں ہوا جو چپریال، ننگولے، باریام اور شوار جیسی معاون ندیوں سے ملتے ہیں۔ منگلور اور مالم جبہ کی ندیوں نے بھی اس میں حصہ ڈالا۔

چارباغ میں ایک ٹیلی میٹری سسٹم مبینہ طور پر غیر فعال تھا حالانکہ سوات کے ایگزیکٹو انجینئر انعام اللہ خان نے وہاں اس کے وجود سے انکار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ صرف خوازہ خیلہ کے پاس ہی ایسا نظام موجود ہے۔

سوات کے سابق ڈپٹی کمشنر شہزاد محبوب جن کا تبادلہ ہفتے کے روز ہوا، نے کہا کہ سیلاب اتنی جلدی آیا کہ حکام کوئی ردعمل نہیں دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’دریائے سوات کی چھوٹی چھوٹی ندیوں میں پانی کی سطح بڑھ گئی اور یہ بہت ہی کم وقت میں جائے وقوع تک پہنچ گئیں‘۔

پھر بھی سوالات اپنی جگہ برقرار ہیں کہ کیا بالائی تحصیلوں خوازہ خیلہ، مٹہ، چارباغ اور بابوزئی نے مینگورہ کے حکام کو بروقت خبردار کیا؟ کیا اس طرح کی کوئی وارننگ جانی نقصان کو روکنے کے لیے احتیاطی کارروائی کو متحرک کرسکتی تھی؟

سانحہ کی شام، خیبرپختونخوا حکومت نے بابوزئی اور خوازہ خیلہ کے اسسٹنٹ کمشنرز کو تاخیر سے ردعمل دینے اور قبل از وقت وارننگ جاری کرنے میں ناکامی پر معطل کردیا جبکہ انتظامات میں ناکامی پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریلیف) کو بھی معطل کردیا گیا۔

چند عہدیداروں نے سوال کیا کہ محصور سیاحوں کے قریب لائف جیکٹس کیوں نہیں پھینکی گئیں؟ دیگر نے ناقص ردعمل دینے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اگرچہ انتباہات دیے گئے تھے لیکن حکام فیلڈ ایکشن میں بری طرح ناکام رہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

منظور علی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔