دنیا

شام پر عائد امریکی پابندیاں باضابطہ طور پر ختم، اسرائیل شامی قیادت سے تعلقات کا خواہاں

ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر میں 2004 سے نافذ ’قومی ہنگامی حالت‘ کو ختم کر دیا، شام عالمی معیشت کا حصہ بن سکے گا، خطے میں ایران کا اثر زوال پذیر، بشار الاسد پر پابندیاں برقرار رہیں گی

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر عائد امریکی پابندیاں باضابطہ طور پر ختم کر دیں، تاکہ جنگ زدہ ملک کو عالمی معیشت میں دوبارہ شامل کیا جا سکے، جب کہ اسرائیل شام کی نئی قیادت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ٹرمپ نے مئی میں شام پر سے زیادہ تر پابندیاں اٹھا لی تھیں، جس کا مقصد سعودی عرب اور ترکیہ کی درخواستوں کا جواب دینا تھا، جب احمد الشرع نے اسد خاندان کی نصف صدی پر محیط حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔

ایک ایگزیکٹو آرڈر میں، ٹرمپ نے 2004 سے نافذ ’قومی ہنگامی حالت‘ کو ختم کر دیا، جس کے تحت شام پر وسیع پابندیاں عائد کی گئی تھیں، جن میں مرکزی بینک سمیت بیشتر سرکاری ادارے شامل تھے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ اقدام ملک کے امن اور استحکام کے راستے کی حمایت اور فروغ دینے کی کوشش ہے۔

وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک بیان میں کہا کہ یہ اقدامات ایک ایسے شام کے ساتھ نئے تعلقات قائم کرنے کے صدر کے وژن کی عکاسی کرتے ہیں، جو خود اپنے ساتھ اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن و ہم آہنگی میں ہو۔

روبیو نے کہا کہ وہ شام کو دہشت گردی کی معاون ریاستوں کی فہرست سے نکالنے کے ممکنہ طور پر طویل عمل کا آغاز کریں گے، جس کا یہ درجہ 1979 سے شام پر لگا ہوا ہے اور جس نے سرمایہ کاری کو سختی سے روکے رکھا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ احمد الشرع اور ان کی تحریک ’حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کو دہشتگرد تنظیم کی فہرست سے نکالنے پر غور کریں گے، جس کا ماضی میں القاعدہ سے تعلق رہا ہے، امریکا نے الشرع کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے سر کی قیمت بھی ہٹا دی تھی۔

ٹریژری ڈپارٹمنٹ کے پابندیوں کے انچارج اہلکار بریڈ اسمتھ نے کہا کہ یہ اقدام شام کو بین الاقوامی مالیاتی نظام سے جوڑ دے گا، جو عالمی تجارت اور علاقائی و امریکی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کرے گا۔

وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا کہ اسد کے زوال کے بعد شام میں تبدیلی آئی ہے، خاص طور پر صدر احمد الشرع کی قیادت میں نئی حکومت کے مثبت اقدامات کی وجہ سے یہ ممکن ہوا ہے۔

پرانی حکومت کے سربراہ بشار الاسد سمیت ان کے ساتھیوں پر پابندیاں برقرار رہیں گی، اسد گزشتہ سال روس فرار ہو گئے تھے۔

شامی وزیر خارجہ اسعد الشبانی نے کہا کہ امریکی اقدام ایک اہم موڑ ہے۔

انہوں نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ معاشی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ کے خاتمے کے ساتھ، تعمیر نو اور ترقی کے طویل انتظار کے دروازے کھل رہے ہیں، اور ساتھ ہی جبری طور پر بے دخل کیے گئے شامیوں کی باعزت واپسی کے لیے حالات سازگار ہو رہے ہیں۔

شام نے حال ہی میں 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد پہلی بار عالمی بینکاری نظام کے ذریعے الیکٹرانک منتقلی انجام دی ہے۔

اسرائیل کو موقع نظر آ رہا ہے

اسرائیل نے اسد کے زوال کے بعد شامی فوجی ٹھکانوں پر حملے جاری رکھے اور ابتدا میں الشرع کی قیادت پر شک و شبہ کا اظہار کیا، جن کا تعلق ماضی میں القاعدہ سے رہا تھا۔

لیکن اسرائیل نے پیر کے روز کہا کہ وہ شام اور لبنان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں دلچسپی رکھتا ہے، جسے ’ابراہم معاہدے‘ کی توسیع کہا جا رہا ہے ، یہ مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی تبدیلی ہو گی۔

ایران کا اثر زوال پذیر

ایران کی مذہبی حکومت کا شام اور لبنان میں اثر و رسوخ اسرائیلی حملوں کے بعد کمزور پڑ چکا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ شام پر عائد پابندیاں ہٹانا ملک کو علاقائی دھارے میں شامل کرنے کا ذریعہ ہو گا، اور اسرائیل کی جانب سے تعلقات قائم کرنے کی ترغیب بھی فراہم کرے گا۔

امریکی سفیر برائے ترکی اور شام کے لیے ٹرمپ کے خصوصی نمائندے ٹام بیرک نے کہا کہ جون میں ایران پر اسرائیل کے شدید حملوں نے ایک ایسا موقع کھولا ہے جو پہلے کبھی نہیں تھا۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ ایک ایسا موقع ہے جو پہلے کبھی نہیں ملا، اور صدر نے ایک ایسی ٹیم بنائی ہے جو یہ سب کچھ عملی جامہ پہنا سکتی ہے۔

پس منظر میں تشدد جاری

نئے شامی رہنما کی مثبت تصویر کے باوجود، بشار الاسد کے زوال کے بعد ملک میں اقلیتوں پر کئی بڑے حملے ہو چکے ہیں۔

22 جون کو دمشق میں ایک یونانی آرتھوڈوکس چرچ پر مشتبہ اسلام پسند حملے میں کم از کم 25 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔

ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے کے دوران پابندیاں ہٹانے کے اس غیر متوقع اعلان سے قبل، امریکا نے بارہا کہا تھا کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ سمیت اہم شعبوں میں پیش رفت کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرے گا۔

اگرچہ پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں، لیکن امریکا اب بھی شام کو دہشت گردی کی معاون ریاست قرار دیتا ہے، یہ درجہ ہٹانا زیادہ طویل عمل ہے اور سرمایہ کاری کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔