ہندو سے سندھو تک: علیحدگی پسند تحریکیں اور دریائے سندھ کی تاریخ
گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق وزیر فواد چوہدری کو چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری (پی پی پی) نے تاریخ کے حوالے سے سخت سبق دیا۔
ایکس پوسٹ میں بلاول بھٹو زرداری نے دریائے سندھ کے لیے ’سندھو‘ لفظ استعمال کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اس کے بہاؤ میں کسی بھی طرح کے ’حملے‘ (بھارت کی جانب سے) کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فواد چوہدری نے اس پر تبصرہ کیا کہ بلاول کو یہاں سندھو نہیں کہنا چاہیے تھا۔ انہوں نے لکھا، ’یہ پاکستان پر حملہ ہے سندھ پر نہیں، یا پھر آپ بھی سندھو دیش کے خیال کو ماننے لگے ہیں‘۔
فواد چوہدری کے تبصرے نے ظاہر کیا کہ وہ موضوع کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ بلاول غصے میں آگئے اور ردعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ سندھو درحقیقت دریائے سندھ کا پرانا نام ہے۔ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ سندھ سے باہر بہت سے لوگ اس سے واقف نہیں۔ یہ ایسی بات نہیں جسے پاکستان کی نصابی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہو۔ تو جب بھی لوگ ’سندھو‘ کا لفظ سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں پہلا خیال سندھو دیش کا آتا ہے، آزاد سندھ کے لیے ایسی اصطلاح جو سندھی اسکالر جی ایم سید نے وضع کی تھی۔
دریائے سندھ تبت میں ایک پہاڑی چشمے سے نکلتا ہے۔ اس میں پانی گلیشیئرز پگھلنے سے شامل ہوتا ہے جبکہ یہ لداخ کے علاقے سے پاکستان میں بہتا ہے۔ بحیرہ عرب کی جانب اس کا زیادہ تر سفر پاکستان کی سرحدی حدود میں ہوتا ہے۔ یہ ملک کا سب سے بڑا دریا ہے اور اسے اکثر ’پاکستان کا قومی دریا‘ کہا جاتا ہے۔
تقریباً 5 ہزار سال پہلے اسی دریا کے کنارے ایک بڑی تہذیب کا ظہور ہوا۔ ماہرین آثار قدیمہ اسے وادی سندھ کی تہذیب یعنی انڈس ویلی سویلائزیشن کہتے ہیں۔ یہ شمال مشرقی افغانستان سے لے کر آج کے پاکستان اور شمال مغربی بھارت کے ایک بڑے حصے پر پھیلی ہوئی تھی۔
کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ انڈس ویلی سویلائزیشن کے دور میں دریا کو کیا جاتا تھا لیکن امریکی ماہر لسانیات فرینکلن ساؤتھ ورتھ کا کہنا ہے کہ اسے ممکنہ طور پر ’سنٹو‘ کہا جاتا تھا۔ تاہم لفظ ’سندھو‘ سب سے پہلے رگ وید میں ظاہر ہوا جو سب سے قدیم ہندو مذہبی متن ہے جسے دوسری صدی قبل مسیح میں لکھا گیا تھا۔ یہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور فرینکلن ساؤتھ ورتھ کا خیال ہے کہ اس لفظ کو شاید ’سنٹو‘ سے ان لوگوں نے اخذ کیا جو انڈس ویلی سویلائزیشن کے خاتمے کے بعد یہاں آباد ہوئے۔
قدیم فارسیوں نے ’سندھو‘ کو ’ہندو‘ کہا۔ وہ علاقے جو آج پاکستان کے سندھ اور پنجاب ہیں ہخامنشی فارسی سلطنت (330-550 قبل از عام تاریخ) کا حصہ تھے۔ فارسی ان علاقوں میں مقیم لوگوں کو ’ہندو‘ یا ’دریا کے لوگ‘ کہا کرتے تھے۔
قبل از عام تاریخ کی 5ویں صدی میں قدیم یونانیوں کا ان لوگوں سے سامنا ہوا۔ لفظ ’ہندو‘ کا یونانی ترجمہ ’انڈو‘ تھا۔ انہوں نے دریا کو ’انڈوس‘ جبکہ خطے کو ’انڈوئی‘ یا ’دریائے انڈوس کی زمین/لوگ‘ کہا۔
لہٰذا لفظ ہندو ایک قدیم فارسی لفظ ہے جو سنسکرت کے لفظ ’سندھو‘ سے ماخوذ ہے جو دریا کا حوالہ دیتا ہے۔ ’انڈو‘ قدیم یونانیوں نے فارسی لفظ ’ہندو‘ سے اخذ کیا تھا۔ ’انڈوس‘ سے ہی ہمیں ’انڈس‘ (اور انڈیا) کا نام ملا ہے۔ ہندو لفظ کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس زمانے میں ہندو مذہب تھا ہی نہیں۔ لفظ ’ہندو ازم‘ نسبتاً نیا ہے۔
مؤرخ ابراہم ایرالی کے مطابق، 16ویں صدی میں ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی میں غیرمسلم آبادیوں میں فرق کرنے کے لیے انہیں ہندو کہا جانے لگا۔ تاہم لفظ ’ہندو ازم‘ 19ویں صدی کی اولین دہائیوں میں برطانوی مصنفین نے وضع کیا تھا۔ انہوں نے اس اصطلاح کا استعمال پرانی روایات، کتابوں اور زندگی کے طریقوں کے مرکب کو بیان کرنے کے لیے کیا جو تقریباً 2000 قبل مسیح پرانی تھیں۔ تاہم 19ویں صدی میں لوگوں نے ’ہندو‘ کو مذہبی تناظر سے دیکھنا شروع کیا۔ اس کے باوجود ایسے ہندو ہیں جو اس لفظ کو مسترد کرتے ہیں اور قدیم ’ویدک عقائد‘ کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
لفظ سندھو اب بھی پاکستان اور بھارت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں انڈس ریور کو دریائے سندھ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک بار پھر دریائے سندھ میں لفظ سندھ، سندھو سے اخذ کیا گیا ہے، صوبہ سندھ سے نہیں کہ جہاں سندھی بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے۔ تو سندھ کا لفظ آخر آیا کہاں سے؟
چونکہ دریائے سندھ کا ایک بڑا حصہ اس خطے میں گزرتا ہے، اس لیے قدیم فارسی اسے ’ابیسند‘ کہتے ہیں، یونانی’سنتھس’، رومیوں نے اسے ’سندوس‘، چینی ’سنتو‘ جبکہ عرب اسے ’سندھ‘ کہتے ہیں۔ 8ویں صدی میں عربوں نے اس خطے کو جو نام دیا تھا، آج بھی یہ صوبہ اسی نام سے جانا جاتا ہے۔
1843ء میں برطانوی نوآبادیاتی قوت نے سندھ کو فتح کیا اور اسے بمبئی پریزیڈینسی میں ضم کردیا۔ اس سے سندھیوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوا۔ اگلی 9 دہائیوں تک سندھ کے دانشوروں اور سیاستدانوں نے سندھ کو صوبے کی حیثیت دلوانے کے لیے جدوجہد کی۔ 1936ء میں وہ کامیاب ہوگئے۔ 1947ء میں سندھ نے پاکستان کا حصہ بننے کے حق میں ووٹ دیا۔
تاہم سندھی بولنے والوں میں یہ احساسِ محرومی اس وقت واپس آگیا کہ جب سندھ کے دارالحکومت کراچی کو وفاق نے اپنے ماتحت کرلیا۔ مزید یہ ہوا کہ قیامِ پاکستان کے بعد لاکھوں اردو بولنے والے مہاجرین سندھ میں رہائش پذیر ہوئے جس سے آبادی میں نمایاں تبدیلی آئی۔ اس نے صوبے خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد کی نسلی ساخت کو تبدیل کردیا۔
نئے مسائل اور شکایات نے سندھی قوم پرستی کے جذبے کو ایک بار پھر جگا دیا جوکہ برطانوی راج میں سندھ کو صوبہ بنانے کے لیے جاگا تھا۔ پاکستان میں اس خیال کی زیادہ تر حمایت جی ایم سید، ابراہیم جویو اور شیخ ایاز جیسے مفکرین نے کی تھی۔
1960ء کی دہائی میں انہوں نے سندھیوں کی ’تاریخ‘ تخلیق کی جس نے ڈاکٹر عاصمہ فیض نامی اسکالر کے مطابق، ’ایک کمیونٹی کی سیاسی اور نظریاتی امنگوں کو ظاہر کیا جو کھوئی ہوئی عظمت کی تلاش میں ہے، ایک ایسے ماضی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے جہاں نوآبادیاتی دور کے آغاز سے قبل علاقائی اور سیاسی خود مختاری کا دور تھا‘۔
1971ء میں بنگالی اکثریتی مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد سندھی قوم پرستی نے مزید عسکریت پسندی اختیار کی۔ ایک سال بعد جی ایم سید نے سندھو دیش تحریک کا آغاز کیا جس کی خواہش سندھ کو پاکستان سے الگ کرنا تھا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اس وقت ایک سندھی ذوالفقار علی بھٹو کے پاس اقتدار تھا۔ بھٹو اور ان کی جماعت کٹر وفاق پرست تھی جبکہ وہ سندھ کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی مقبول تھے۔ بھٹو حکومت نے جی ایم سید کی علیحدگی پسند سیاست کو بے اثر کرنے کی اسکیم شروع کی۔ بھٹو نے جی ایم سید کی سندھی قوم پرست کہانی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور اسے ایک متحدہ پاکستان کے خیال میں فٹ کرنے کی کوشش کی جس میں بہت سے صوبے مل کر کام کر رہے تھے۔
کہا جاسکتا ہے کہ وفاق قوم پرستی کے خیال کی وجہ سے کہا گیا کہ پاکستان، تہذیبوں کی ایک طویل تاریخ کا حصہ ہے جو 5 ہزار سالوں میں دریائے سندھ کے کنارے پروان چڑھی ہے۔ اس بیانیے سے یہ ہوا کہ سندھ اس تہذیب کا حصہ ہے جس میں پورا پاکستان شامل ہے۔ اس طرزِ فکر کی وجہ سے سندھی قوم پرستی کی مضبوط اور جارحانہ شکلیں، وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی چلی گئیں۔
تو فواد چوہدری صاحب کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ جہلم کے ایک پنجابی ہونے کی حیثیت سے وہ دریائے سندھ کے کنارے پروان چڑھنے والی تہذیب کا حصہ ہیں۔ ایک ایسا دریا جسے بہت پہلے سندھو کہا جاتا تھا کہ جب سندھو دیش نامی کسی تصور کا وجود بھی نہ تھا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔
ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@
