نقطہ نظر

کیا فاٹا کی نیم خودمختار حیثیت بحال کرنے کے ممکنہ اقدام کے پیچھے بھی ٹرمپ ہیں؟

وفاقی حکومت کی جانب سے فاٹا کی سابقہ اصلاحات پر نظرثانی اور وہاں جرگہ نظام کی بحالی کے حوالے سے یقیناً کچھ شکوک و شبہات ضرور پیدا ہوئے ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے نو ضم شدہ اضلاع میں جرگہ سسٹم کو بحال کرنے کی تجویز کو سابقہ قبائلی ایجنسیز کی نیم خودمختار حیثیت بحال کرنے کی جانب پہلے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

پرانے نظام کی دوبارہ واپسی کے حوالے سے شاید ابھی کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی گئی لیکن وزیر اعظم کی جانب سے اس معاملے پر وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کے فیصلے نے شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔

کمیٹی کے اراکین کے حالیہ اجلاس جس میں زیادہ تر وفاقی حکومت کے حکام نے شرکت کی، نے اضلاع میں جرگہ نظام کو بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق قبائلی اضلاع میں مؤثر متبادل نظامِ عدل کو فروغ دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جرگہ سسٹم جو تنازعات کے حل کا روایتی طریقہ ہے، 2018ء میں 25ویں آئینی ترمیم کے ذریعے 7 قبائلی ایجنسیز کے انضمام کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔

کوئی بھی اس رجعت پسند، غیر آئینی اقدام کے پس پردہ مقاصد کو سمجھنے سے قاصر ہے جس سے نہ صرف وفاق کا اتحاد کمزور ہوگا بلکہ ہماری قومی سلامتی پر بھی سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے کمیٹی کی تشکیل کو مسترد کرتے ہوئے اسے صوبائی معاملات میں وفاق کی مداخلت قرار دیا ہے۔ یوں اسلام آباد اور پشاور کے درمیان تعطل مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔

2018ء میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے تناظر میں خیبرپختونخوا میں فاٹا کے انضمام کو نیم خودمختار علاقوں میں لاقانونیت کے خاتمے، انہیں قومی دھارے میں لانے اور اس کی آبادی کو بہتر طرز حکمرانی اور ترقی فراہم کرنے کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ لیکن 7 سال گزر جانے کے باوجود یہ وعدے پورے نہ ہوسکے۔ ضم شدہ اضلاع میں بنیادی انفرااسٹرکچر کی ترقی اور لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے محدود مالی وسائل کی وجہ سے متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

گزشتہ 7 سالوں کے دوران وفاقی حکومت نے انضمام شدہ اضلاع کو نہ تو سالانہ 100 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز فراہم کیے اور نہ ہی قومی مالیاتی کمیشن کے ایوارڈ میں اس کا تین فیصد حصہ انہیں مہیا کیا۔ وفاقی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی انتظامیہ کے درمیان جاری محاذ آرائی سے صورت حال مزید خراب ہوئی ہے۔ خطے میں عسکریت پسندی کے دوبارہ سر اٹھانے سے ضم شدہ اضلاع میں حکومتی نظام مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔

ان مسائل سے نمٹنے کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت پرانے نوآبادیاتی نظام کی جانب لوٹنے کی کوشش کر رہی ہے جو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا کی پسماندگی کی بنیادی وجہ تھا۔

فاٹا متنازع فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن اور پولیٹیکل ایجنٹس کے زیرِانتظام تھا۔ تنازعات کا تصفیہ وفاقی حکومت کے مقرر کردہ قبائلی عمائدین اور ’ملک‘ پر مشتمل مقامی جرگوں نے کیا۔ اس علاقے میں عدالتوں کا کوئی دائرہ اختیار نہیں تھا جبکہ یہ براہ راست وفاق کے ماتحت تھے۔ آئین اور قوانین کی شقیں وہاں لاگو نہیں ہوتیں۔

آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک سیاسی اور جغرافیائی وجوہات کی بنیاد پر اس خطے کو قومی دھارے میں لانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ فاٹا کی نیم خودمختار حیثیت نے حکومت کو اس وقت لاتعلقی ظاہر کرنے کا موقع دیا کہ جب یہ خطہ عسکریت پسندوں کے تربیتی مراکز میں تبدیل ہوگیا اور پھر سوویت افواج کے خلاف لڑنے کے لیے ملک کے اندر اور باہر سے عسکریت پسندوں کو افغانستان بھیجا گیا۔

لیکن اس صورت حال کا یہ بھی نتیجہ نکلا کہ فاٹا عسکریت پسندی کا گڑھ بن گیا جس سے خود پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ یہ اسٹریٹجک طور پر اہم علاقے پر ریاستی رٹ کے مکمل خاتمے کا بھی باعث بنا۔ اس خلا کو دہشتگرد گروہوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے گروہوں نے پُر کیا اور انہوں نے علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔

جہاں ایک جانب پے در پے فوجی آپریشنز سے بڑے پیمانے پر عسکریت پسندوں سے علاقے کو خالی کروایا گیا وہیں اس نے ایک بڑا انسانی بحران بھی پیدا کیا کیونکہ لاکھوں مقامی باشندوں کو تصادم کی صورت حال سے بچنے کے لیے اپنے گھر اور کاروبار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔

ان میں سے زیادہ تر شاید اپنی تباہ شدہ زمینوں پر واپس آ چکے ہوں لیکن بہت سے لوگ روزگار کی تلاش میں دیگر علاقوں میں نقل مکانی کرچکے ہیں۔ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں ضم کرنے کی ایک وجہ وہاں ریاست کی رٹ قائم کرنا اور تنازعات کی وجہ سے تباہی کا شکار ہونے والے علاقوں میں ترقیاتی کام کرنا تھا لیکن 7 سال گزر جانے کے باوجود اضلاع کے لوگوں کی حالت زار میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مالی وسائل کے فقدان کی وجہ سے انتظامی اور نظامِ عدل درہم برہم ہوچکا ہے۔ اس سے عوام کی ناراضی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

سب سے زیادہ تشویشناک بات ضم شدہ اضلاع میں عسکریت پسندی کی واپسی ہے جو انتظامیہ اور نظام عدل کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ فوج انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو یہ ادراک نہیں کہ صرف فوجی آپریشنز سے شورش زدہ علاقوں میں امن و استحکام نہیں آسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فرسودہ جرگہ نظام کی جانب لوٹنے کے بجائے اصلاحاتی پروگرام میں تیزی لائی جائے۔ فوری طور پر سول قوانین نافذ کرنے والی سروسز کو مضبوط کرنے اور ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

سابقہ قبائلی علاقوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے پر چند جماعتوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں میں وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔ لیکن اب اس وقت حکمران جماعت کی جانب سے انضمام کی اصلاحات پر نظر ثانی کافی دلچسپ ہے۔ کچھ رپورٹس بتاتی ہیں کہ سابق فاٹا کو وفاقی حکومت کے تحت واپس لانے کا اقدام کیا جا رہا ہے۔ یوں اسلام آباد کو وہاں کی معدنی کانوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل ہوجائے گا۔

درحقیقت خیبرپختونخوا اسمبلی نے کانوں اور معدنیات سے متعلق قانون سازی نہیں کی جس کے ذریعے وفاقی حکومت کو کانوں کا کچھ کنٹرول حاصل ہوجاتا۔ سابق قبائلی علاقوں میں نایاب و دیگر معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں جس نے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے فاٹا کی سابقہ اصلاحات پر نظرثانی اور وہاں جرگے کے نظام کی بحالی کے حوالے سے یقیناً کچھ شکوک و شبہات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ ریاست خطے کو اس کے جمہوری اور شہری حقوق سے محروم کرکے قبائلیوں کو مزید تنہا کر رہی ہے۔ اگر اس اقدام کے لیے سلامتی کا بہانہ استعمال کیا گیا تو یہ انتہائی تباہ کن ہوگا۔

کچھ غیرمصدقہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ اصلاحات سے پیچھے ہٹنے کے اقدام کی ایک وجہ خطے میں بڑھتی شورش کے حوالے سے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خدشات ہیں۔ لیکن پرانے آرڈر کو بحال کرنے سے معاملات مزید خراب ہوں گے۔ ایسا کوئی بھی اقدام عسکریت پسندوں کو تقویت دے گا اور ہماری سلامتی کو مزید خطرے میں ڈالے گا۔ ریاست کو ان لوگوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیے جو مکمل طور پر ملک کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔