بنگلہ دیش میں خواتین افسران کو ’سر‘ کہنے کا پروٹوکول ختم
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے خواتین عہدیداران کو ’سر‘ کے طور پر مخاطب کرنے کے طویل عرصے سے موجود پروٹوکول کو اسے سابقہ رہنما شیخ حسینہ کی حکومت کا باقی رہ جانے والا ایک ’عجیب‘ ورثہ قرار دیتے ہوئے ختم کردیا۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو دیر گئے عبوری حکومت کے پریس ونگ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سرکاری کرداروں میں خواتین کے لیے ’سر‘ کے استعمال کو لازمی قرار دینے والی ہدایت کو ’منسوخ‘ کر دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ’شیخ حسینہ واجد کے تقریباً 16 سالہ طویل آمرانہ دور حکومت کے دوران، مبینہ طور پر ایک ہدایت جاری کی گئی تھی جس کے تحت سرکاری عہدیداران کو خواتین عہدیداران کو ’سر‘ کہہ کر مخاطب کرنے کا پابند بنایا گیا تھا’۔
مزید کہا گیا کہ ’یہ مشق دیگر اعلیٰ عہدے پر فائز خواتین اہلکاروں تک بھی پھیلی، جنہیں ’سر‘ کہا جاتا تھا اور اب بھی یہ روایت موجود ہے جو کہ واضح طور پر عجیب ہے‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پروٹوکول سے متعلق دیگر ہدایات پر نظر ثانی کے لیے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
ایک خاتون بیوروکریٹ نے کہا کہ عبوری حکومت نے خواتین عہدیداروں سے مشورہ کیے بغیر یہ فیصلہ کیا ہے۔
خاتون عہدیدار نے کہا کہ ’یہ روایت شیخ حسینہ کے دور میں شروع ہوئی تھی، لیکن کئی خواتین افسران نے اس کی حمایت کی تھی، کیونکہ وہ اسے جنسی لحاظ سے غیر جانبدار سمجھتی تھیں‘۔