یورپی یونین اور میکسیکو پر30 فیصد ٹیرف، عالمی رہنماؤں کا ردعمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ یکم اگست سے یورپی یونین اور میکسیکو سے درآمد ہونے والی اشیا پر امریکا 30 فیصد ٹیکس عائد کرے گا جس پر دنیا بھر سے مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ممالک کے لیے نئے ٹیرف لگانے کے اعلانات کیے تھے، جن میں جاپان، جنوبی کوریا، کینیڈا اور برازیل شامل ہیں، اس کے ساتھ ساتھ تانبا پر 50 فیصد ٹیرف بھی عائد کیا گیا تھا۔
یورپی یونین کو امید تھی کہ وہ امریکا کے ساتھ 27 رکنی بلاک کے لیے ایک جامع تجارتی معاہدہ طے کرے گی، تاہم ٹرمپ نے یورپی یونین پر بھی 30 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے ٹیکس کے نفاذ پر غیر ملکی رہنماؤں کی جانب سے مختلف رد عمل دیا گیا ۔
’یورپی یونین اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے تیار ہے‘
یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ یورپی یونین اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم، متحد اور تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس دراصل عوام پر بوجھ ہوتے ہیں، یہ مہنگائی کو بڑھاتے، غیر یقینی صورتحال پیدا کرتے اور معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، ہم دنیا بھر میں مضبوط تجارتی تعلقات بنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
’تجارتی تنازع مزید شدت اختیار کرے گا‘
جرمن آٹو انڈسٹری ایسوسی ایشن کی صدر ہلڈیگارڈ مولر نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے اور اس سے تجارتی تنازع کے مزید شدت اختیار کرنے کا خطرہ موجود ہے، جبکہ گاڑیوں کی درآمد پر 27.5 فیصد ٹیکس کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان اضافی اخراجات کا بوجھ ہماری کمپنیوں پر اربوں ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور آئے روز یہ رقم بڑھ رہی ہے جب کہ میکسیکو سے آنے والی اشیا پر مزید 30 فیصد ٹیکس کے بعد سپلائرز بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین اور امریکا کو جلد از جلد اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے تاکہ دونوں اطراف کے نقصانات سے بچا جا سکے۔
ڈیموکریٹک سینیٹر ایمی کلبوچر نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے یورپی یونین اور میکسیکو پر ایک اور مرحلے کا ٹیکس لگا دیا ہے۔
’یورپی یونین اس اقدام کیخلاف تمام ضروری اقدامات کرے گی‘
انہوں نے سوال کیا کہ ہر چیز کی قیمتیں بڑھانے سے ہمارے ملک کے لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا، مجھے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں نظر نہیں آرہا ہے۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسولا فان ڈیر لین کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کی برآمدات پر 30 فیصد ٹیکس عائد کرنے سے اہم ٹرانس اٹلانٹک سپلائی چین متاثر ہوں گی، جس کا نقصان کاروباروں، صارفین اور مریضوں دونوں طرف ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یورپی یونین ہمیشہ مذاکراتی حل کو ترجیح دیتی رہی ہے اور امریکا کے ساتھ بات چیت، استحکام اور تعمیری شراکت داری کی حامی رہی ہے۔
مزید کہا کہ ’ہم اب بھی یکم اگست تک کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ساتھ ہی ہم اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے، جن میں متناسب جوابی اقدامات بھی شامل ہوں گے‘۔
’موجودہ حالات میں تجارتی جنگ شروع کرنا مناسب نہیں‘
اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ تمام فریقین نیک نیتی سے ایسا منصفانہ معاہدہ کریں گے جس سے مغرب مجموعی طور پر مضبوط ہو۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ قطعی مناسب نہیں کہ اٹلانٹک کے دونوں کناروں پر تجارتی جنگ شروع کی جائے، اب ضروری ہے کہ مذاکرات پر توجہ مرکوز رکھی جائے اور ایسے تنازعات سے بچا جائے جو معاہدہ حاصل کرنا مزید مشکل بنا دیں۔
ڈچ وزیراعظم ڈک شوف نے کہا کہ یورپی یونین کی مصنوعات پر 30 فیصد امریکی ٹیکس کا اعلان تشویشناک ہے اور آگے بڑھنے کا درست راستہ نہیں۔
’یورپی یونین کی مصنوعات پر 30 فیصد ٹیکس تشویشناک ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ یورپی کمیشن ہماری مکمل حمایت پر بھروسہ رکھ سکتا ہے، یورپی یونین کو متحد اور مضبوط رہنا چاہیے اور امریکا کے ساتھ باہمی فائدے کے حامل حل کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔
آئرش وزیر خارجہ سائمن ہیرس نے اپنے رد عمل میں کہا کہ صورتحال کو مزید بڑھانے یا یورپی یونین پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، یورپی یونین متحد اور پرعزم رہے گی جب کہ یکم اگست تک مذاکرات جاری رہیں گے۔