خونریز جھڑپوں کے بعد شامی فوج دروز اکثریتی آبادی والے شہر السویدا میں داخل
شامی فوج دروز اکثریتی آبادی والے شہر السویدا میں داخل ہوگئی ہے، یہ پیشرفت بدو قبائل کے ساتھ کئی دنوں سے جاری خونریز جھڑپوں کے بعد عمل دیکھنے میں آئی ہے، ان جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق منگل کے روز شامی فوج کی تعیناتی اس وقت عمل میں آئی جب دروز کی روحانی قیادت (جو اب تک شہر میں شامی افواج کی موجودگی کی مخالفت کرتی رہی تھی) نے دروز جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے اور سرکاری فوج کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی اپیل کی۔
شہر میں کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے تاکہ ہفتے کے آخر میں شروع ہونے والے تشدد کو روکا جا سکے، جو اب پورے السویدا گورنریٹ میں پھیل چکا ہے، انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے شامی ادارے ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق اب تک کم از کم 99 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں 60 دروز شامل ہیں جن میں 4 عام شہری بھی شامل ہیں، 18 بدو جنگجو، 14 سیکیورٹی اہلکار اور 7 نامعلوم افراد فوجی وردیوں میں تھے، وزارت دفاع نے مسلح افواج کے 18 اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
منگل کی صبح شامی فوج کو شہر السویدا کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا گیا، جن کے ساتھ بھاری توپ خانہ بھی تعینات تھا، وزارت دفاع نے بعد میں تصدیق کی کہ فوجی دستے شہر میں داخل ہو چکے ہیں اور شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ گھروں میں رہیں اور کسی بھی غیر قانونی گروہ کی نقل و حرکت کی اطلاع دیں۔
یہ پہلا موقع ہے جب بشار الاسد کی دسمبر میں اقتدار سے بے دخلی اور عبوری صدر احمد الشرع کی زیر قیادت حکومت کے قیام کے بعد حکومت کے دستے السویدا میں داخل ہوئے ہیں۔
دروز ایک مذہبی اقلیت ہے جو 10ویں صدی میں شیعہ اسلام کی ایک شاخ سے علیحدہ ہوئی تھی، شام میں یہ کمیونٹی تقریباً 7 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جو زیادہ تر جنوبی صوبہ السویدا اور دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقوں جرمانا اور اشرفیت صحنا میں آباد ہے۔
بدو اور دروز گروہوں کے درمیان السویدا میں ایک طویل عرصے سے دشمنی چلی آ رہی ہے اور وقتاً فوقتاً پرتشدد جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
الجزیرہ کے نمائندے نے بتایا کہ شہر میں لڑائی جمعے سے جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جھڑپیں شدت اختیار کر گئیں اور 2 درجن سے زائد افراد مارے گئے، حکومت نے کمک بھیجی، مگر سرکاری فوج پر بھی گھات لگا کر حملہ کیا گیا، جس میں کم از کم 18 فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے۔
اسامہ بن جاوید کے مطابق صورت حال کو اسرائیلی حملوں نے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جو شامی حکومت کے ٹھکانوں پر کیے جا رہے ہیں۔
خود کو شام میں دروز اقلیت کا محافظ ظاہر کرنے والے اسرائیل نے پیر کو شامی ٹینکوں پر بمباری کی۔
اسرائیل نے متعدد حملے کیے اور اس کا کہنا ہے کہ شام کے جنوبی علاقے میں کسی بھی قسم کی نقل و حرکت کو اسرائیلی فوج مانیٹر کرے گی اور حملے جاری رکھے گی۔
متحد شام چاہتے ہیں، امریکی نمائندہ تھامس براک
’العربیہ‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی نمائندہ برائے امورِ شام، تھامس براک نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے لیے دمشق حکومت کے ساتھ مفاہمت ہی واحد راستہ ہے۔
انہوں نے پیر کے روز شام سے متعلق امریکی-ترکیہ تعلقات کے فروغ اور شام کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے حوالے سے ایک بریفنگ میں کہا کہ ہم ایک متحد شام چاہتے ہیں اور ایسا آئین جس میں سب کی نمائندگی کرنے والا پارلیمان ہو۔
تھامس براک نے کہا کہ شام کو تیزی سے تعمیرِ نو کے لیے وسائل درکار ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب دنیا اس کی مدد کرے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وژن کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر کی سوچ یہ ہے کہ شام کو ایک موقع دیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شام پر سے پابندیاں ہٹانا عوام کے لیے امید کی کرن بنے گا۔
تھامس براک نے واضح کیا کہ ہم نہ تو کوئی علوی ریاست چاہتے ہیں، نہ دروزی، اور نہ ڈی ایس ایف کے لیے کوئی علیحدہ وجود، ہم صرف ایک متحد شام چاہتے ہیں۔
اسی تناظر میں انہوں نے پھر کہا کہ ایس ڈی ایف کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ دمشق کا رُخ کرے۔
ان بیانات کے ساتھ ساتھ، شامی وزیرِ خارجہ اسعد الشیبانی نے پیر کے روز ’العربیہ/الحدث‘ سے گفتگو میں کہا کہ شام میں ہتھیار اٹھانے کا اختیار صرف ریاست کو حاصل ہے، شام آہستہ آہستہ عرب اور عالمی حلقوں میں اپنا فطری مقام بحال کر رہا ہے۔
انہوں نے شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی بعض کوششوں پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے داخلی امور میں کسی کو مداخلت کا اختیار نہیں۔
یہ بیانات ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب حالیہ دنوں میں ایس ڈی ایف اور شامی حکومت کے درمیان دمشق میں مذاکرات ہوئے ہیں، جنھیں آئندہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
الشرع کے ساتھ معاہدہ
ایس ڈی ایف کے سربراہ نے 10 مارچ کو احمد الشرع کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، معاہدے کے پہلے نکتے میں تمام شامی شہریوں کو سیاسی عمل اور ریاستی اداروں میں مذہبی و نسلی پس منظر سے قطع نظر، اہلیت کی بنیاد پر شرکت کا حق دینے کی ضمانت دی گئی۔
دوسرا نکتہ کرد برادری کو شام کے ایک بنیادی جزو کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور ریاست ان کے شہری اور آئینی حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔
سب سے نمایاں تیسرا نکتہ تھا جو شام کے تمام علاقوں میں جنگ بندی پر زور دیتا ہے۔
چوتھے نکتے میں شمال مشرقی شام کی تمام سول اور عسکری اداروں، سرحدی گزرگاہوں، ہوائی اڈے، تیل وگیس کے کنوؤں کو ریاستی انتظام میں ضم کرنے کی بات کی گئی۔
اس معاہدے میں تمام مہاجر شامیوں کی اپنے علاقوں کو واپسی اور ریاستی سطح پر ان کے تحفظ کی ضمانت بھی شامل تھی۔
اس کے علاوہ معاہدے میں سابق حکومت کے بچ جانے والے عناصر کے خلاف کارروائی، تقسیم کی کوششوں، نفرت انگیز تقاریر اور فتنہ انگیزی کو مسترد کرنے، اور سال کے اختتام سے قبل معاہدے کے نفاذ کے لیے عمل درآمدی کمیٹیاں تشکیل دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔