نقطہ نظر

اداریہ: ’خواتین خاندان کی غیرت کی حفاظت کرنے والی اشیا نہیں ہیں‘

صنفی تشدد کی سب سے گھناؤنی شکل اس وقت دیکھنے میں آتی ہے کہ جب ایک عورت محبت کرنے کی ہمت کرتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے خاندانی عزت کو پامال کرتی ہے۔

’غیرت کے نام پر قتل‘ فرسودہ روایات کی پیروی کرنے کے لیے کیا جانے والا ایسا فعل ہے جو خون سے پروان چڑھتا ہے۔

صنفی تشدد کی سب سے گھناؤنی شکل اس وقت دیکھنے میں آتی ہے کہ جب ایک عورت محبت کرنے کی ہمت کرتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے خاندانی عزت کو پامال کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں متعلقہ عورت اور اس کے ساتھی کو موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں گزشتہ ماہ نوجوان جوڑے کو قتل کیے جانے کی ایک دلخراش ویڈیو حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے اور اس نے پورے پاکستان میں ہلچل مچا دی ہے۔ لرزہ خیز فوٹیج میں ایک نوجوان خاتون کو گولیوں سے قتل ہوتے دیکھا گیا جبکہ کئی مرد کھڑے دیکھتے رہے۔

ریاست کی جانب سے دہشتگردی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور مبینہ طور پر قتل کا حکم دینے والے قبائلی سربراہ سمیت ایک درجن مشتبہ افراد زیر حراست ہیں۔ مقدمہ سیریس کرائمز انویسٹی گیشن ونگ کو منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ کوئٹہ کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے خاتون کی قبر کشائی کا حکم دیا۔

دوسری جانب اٹک میں بھی دو مردوں نے خاندان کی ’غیرت‘ بحال کرنے کے لیے خون بہانے کا سہارا لیا اور نومولود کی ماہ کو اس کے شوہر اور سسر نے ’کردار‘ کے حوالے سے شکوک و شبہات میں متعدد گولیاں مار کر قتل کردیا۔ لوئر دیر میں فرقہ وارانہ غیرت نے ناجائز تعلقات رکھنے کے شبہ میں ایک جوڑے کی جان لے لی۔

ان خوفناک جرائم کے تسلسل نے پاکستان میں متوازی نظام عدل اور خواتین کے حقوق کی کمزوری کے بارے میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ ان جرائم کو روایت یا ثقافت کے حصے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے جو انہیں کسی طرح قابل قبول قرار دیتے ہوں۔

2016ء میں حکومت نے نظام میں موجود ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی کہ جن کے نتیجے میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کسی سزا کے بغیر آزاد گھومتے تھے۔ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 311 جو ’فساد فی الارض‘ پر بات کرتا ہے، یقینی بناتا ہے کہ جب ’غیرت کے نام پر قتل‘ ہو اور شکایت کنندہ مجرم کو معاف کردے تو اس صورت میں ریاست کو مداخلت کا اختیار حاصل ہے۔

ان ترامیم کے باوجود قتل بشمول غیرت کے نام پر قتل کی سزا کو مقتولین کے ورثا معاف کردیتے ہیں۔ عدالتیں شاذ و نادر ہی مجرمان اور لواحقین کے درمیان تصفیہ کو ختم کرنے کے لیے صوابدید کا استعمال کرتی ہیں، اس طرح قاتلوں کو سزا سے استثنیٰ مل جاتا ہے جوکہ اب ایک روایت بن چکا ہے۔

ریاست کو اپنے شہریوں کو پدرشاہی نظام کے کینسر سے بچانے کا عزم ظاہر کرنا چاہیے۔ جنوری 2024ء سے نومبر 2024ء تک انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ’غیرت‘ کے نام پر 346 افراد مارے گئے۔ گزشتہ دو سالوں میں اس طرح کے قتل کے بڑھتے واقعات کو روکنے کا واحد راستہ ایسی قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے جو انصاف، انسانی حقوق اور ذمہ داری کی حمایت کریں۔

سماجی کارکنان کی جانب سے صرف بندوق کی نال کا سامنا کرنے والی خاتون کی جرأت کی تعریف کرنا کافی نہیں۔ کسی کو بھی ایسی روایات کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔ خواتین خاندان کی ساکھ کی حفاظت کرنے والی اشیا نہیں ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ