عالمی عدالتِ انصاف نے موسمیاتی تبدیلیوں کو ’وجودی خطرہ‘ قرار دے دیا
اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے 23 جولائی کو ریاستوں کی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق قانونی ذمہ داریوں پر اپنی رائے میں کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی فوری اور وجودی خطرہ قرار دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق عالمی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) جسے عالمی عدالت بھی کہا جاتا ہے، کی یہ غیر حتمی رائے دنیا بھر میں آئندہ موسمیاتی اقدامات کے رُخ کا تعین کر سکتی ہے۔
جج یوجی ایواساوا نے کہا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں، جو کسی ایک ریاست کی حدود تک محدود نہیں ہیں، عدالت کی جانب سے رائے کا عمل جاری تھا، تاہم حتمی فیصلہ ابھی تک جاری نہیں کیا گیا۔
فیصلے سے قبل، ماحولیاتی کارکن عالمی عدالت کے باہر جمع ہوئے اور نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ کہ ہمیں کیا چاہیے ؟ موسمیاتی انصاف، کب چاہیے؟ ابھی۔
اگرچہ یہ فیصلہ قانونی طور پر پابند نہیں کرتا، لیکن ہیگ میں آئی سی جے کے 15 ججوں کا یہ غور و فکر قانونی اور سیاسی طور پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے اور ماہرین قانون کے مطابق مستقبل میں کوئی بھی موسمیاتی مقدمہ اس رائے کو نظرانداز نہیں کر سکے گا۔
سینٹر فار انٹرنیشنل انوائرمینٹل لا کی سینئر وکیل جوئے چوہدری نے کہا ہے کہ یہ اتنا اہمیت کا حامل ہے کہ یہ موجودہ وقت کے سب سے مؤثر قانونی فیصلوں میں سے ایک بن سکتا ہے، کیونکہ یہ موسمیاتی انصاف کے بنیادی نکات کو چھوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عدالت سے دو سوالات پر رائے مانگی تھی کہ ممالک کی بین الاقوامی قانون کے تحت موسمیاتی نظام کو گرین ہاؤس گیسوں سے بچانے کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اور اُن ممالک کیخلاف کیا قانونی نتائج ہوں گے جو موسمیاتی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں؟
گزشتہ دسمبر آئی سی جے میں 2 ہفتوں کی سماعت کے دوران، گلوبل نارتھ کے امیر ممالک نے ججز کو بتایا تھا کہ موجودہ موسمیاتی معاہدے، جیسا کہ 2015 کا پیرس معاہدہ، ان کی ذمہ داریوں کا تعین کرنے کی بنیاد ہونے چاہئیں۔
اُدھر ترقی پذیر ممالک اور چھوٹی ریاستوں نے مؤقف اپنایا کہ اخراجات میں کمی کے لیے مضبوط، بعض اوقات قانونی طور پر پابند اقدامات ہونے چاہئیں، اور موسمیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے بڑے اخراج کرنے والے ممالک کو مالی امداد فراہم کرنی چاہیے۔
پیرس معاہدہ
واضح رہے کہ 2015 میں پیرس میں اقوام متحدہ کے مذاکرات کے اختتام پر 190 سے زائد ممالک نے عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کی کوشش کرنے کا عہد کیا تھا، تاہم یہ معاہدہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکنے میں ناکام رہا۔
گزشتہ برس کے آخر میں اقوامِ متحدہ کی ایمیشنز گیپ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ موجودہ موسمیاتی پالیسیاں اگر جاری رہیں تو سنہ 2100 تک عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے 3 ڈگری سیلسیئس زائد تک بڑھ جائے گا۔
موسمیاتی انصاف کے حامی اب حکومتوں اور کمپنیوں کو جواب دہ بنانے کے لیے قانونی کارروائیاں کر رہے ہیں، لندن کے گرانتھم ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق اب تک دنیا کے لگ بھگ 60 ممالک میں تقریباً 3 ہزار مقدمات درج کیے جا چکے ہیں، ان کیسز کے نتائج بھی مختلف رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، ایک جرمن عدالت نے مئی میں ایک کیس کو خارج کر دیا، جس میں ایک پیرووین کسان نے جرمن کی انرجی کمپنی آر ڈبلیو ای کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا، لیکن وکلا اور ماحولیاتی کارکنوں نے کہا کہ 10 سال تک چلنے والا یہ مقدمہ پھر بھی ایک کامیابی ہے جو مستقبل میں مزید ایسے مقدمات کی راہ ہموار کرے گا۔
رواں برس مئی میں جرمن عدالت نے پیرووین کسان کی جانب سے جرمن انجری کمپنی کیخلاف درج مقدمے کو خارج کرنے کا فیصلہ سنایا ہے، وکلا اور ماحولیاتی کارکنوں نے اس مقدمے کے حوالے سے کہنا ہے کہ 10 سال تک چلنے والا یہ کیس بہرحال ایک کامیابی ہے جو مستقبل میں مزید ایسے مقدمات کی راہ ہموار کرے گا۔
اسی ماہ کے آغاز میں انٹر امریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس نے بھی ایک مشاورتی رائے دی کہ اس کے رکن ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف باہمی تعاون کرنا ہوگا۔
کارکنوں کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز عالمی عدالت کی رائے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے، چاہے وہ صرف مشاورتی ہی کیوں نہ ہو، یہ فیصلہ ریاستوں کو دوسرے ممالک کو آلودگی یا اخراج جیسے موسمیاتی مسائل پر قانونی طور پر جواب دہ ٹھہرانے میں آسانی فراہم کر سکتا ہے۔
فیجی سے تعلق رکھنے والے ویشال پرساد، جو ان قانون کے طلبہ میں شامل تھے جنہوں نے بحرالکاہل کے ملک وینوآتو کی حکومت کو یہ کیس عالمی عدالت لے جانے پر قائل کیا، نے کہا ہے کہ عدالت اس بات کی تصدیق کر سکتی ہے کہ خاص طور پر بڑے اخراج کرنے والوں کی موسمیاتی بے عملی محض پالیسی کی ناکامی نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
اگرچہ نظریاتی طور پر کوئی ملک آئی سی جے کے فیصلے کو نظرانداز کر سکتا ہے، لیکن وکلا کا کہنا ہے کہ عام طور پر ریاستیں ایسا کرنے سے گریز کرتی ہیں۔
جوئے چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ رائے ِان بین الاقوامی قوانین کا اطلاق کر رہی ہے جن پر ممالک پہلے ہی دستخط کر چکے ہیں اور خود کو اس کا پابند تسلیم کر چکے ہیں۔