دنیا

ٹرمپ کی مداخلت کے باوجود تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں جھڑپیں جاری، 2 لاکھ سے زائد بے گھر

شمالی کمبوڈیا اور شمال مشرقی تھائی لینڈ کے درمیان متنازع قدیم مندروں کے قریب گولہ باری کا تبادلہ، ایک دوسرے پر پہل کا الزام، کمبوڈیا کا فوری جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق۔

تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں اتوار کو چوتھے روز بھی جھڑپیں جاری ہیں، حالاں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد دونوں فریقوں نے جنگ بندی پر بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق دونوں ہمسایہ ممالک ہر سال لاکھوں غیر ملکی سیاحوں کی منزل ہوتے ہیں، اس وقت کئی سالوں کے خونریز ترین تنازع میں الجھے ہوئے ہیں، جس میں اب تک کم از کم 33 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے اور 2 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

جنگ بندی کی بات چیت کی پیشکش کے باوجود لڑائی جاری

دونوں ممالک نے کہا ہے کہ وہ لڑائی کے خاتمے کے لیے بات چیت شروع کرنے کو تیار ہیں، جب کہ صدر ٹرمپ نے ہفتے کی رات دونوں وزرائے اعظم سے بات کی اور کہا کہ وہ جنگ بندی کے لیے جلد ملاقات پر متفق ہو گئے ہیں۔

لیکن اتوار کی صبح، شمالی کمبوڈیا اور شمال مشرقی تھائی لینڈ کے درمیان متنازع قدیم مندروں کے قریب گولہ باری کا تبادلہ ہوا، یہ علاقہ لڑائی کا مرکز بنا ہوا ہے۔

کمبوڈیا کی وزارتِ دفاع کی ترجمان مالی سوچیٹا نے کہا کہ تھائی افواج نے صبح 4 بج کر 50 منٹ (پاکستانی وقت کے مطابق صبح 6 بج کر 50 منٹ) پر مندروں کے آس پاس حملے شروع کیے۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق کمبوڈیا کے قصبے سمراونگ میں (محاذِ جنگ سے 20 کلومیٹر دور) توپوں کی گونج سے کھڑکیاں لرزتی رہیں۔

دوسری جانب تھائی فوج کے ڈپٹی ترجمان رچا سکسیوانن نے کہا کہ کمبوڈیائی فورسز نے صبح 4 بجے (پاکستانی وقت کے مطابق 6 بجے) گولہ باری شروع کی، جب دونوں ممالک اہم پوزیشنوں پر قابض ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

جنگ بندی کی اپیلیں

کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہن مانیت نے اتوار کو کہا کہ ان کا ملک فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی تجویز سے اتفاق کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے وزیر خارجہ پراک سوکھون امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے بات کریں گے، تاکہ تھائی لینڈ کے ساتھ رابطہ کیا جا سکے، لیکن بنکاک کو کسی بھی معاہدے سے انحراف کرنے سے خبردار کیا۔

صدر ٹرمپ کی فون کال کے بعد، تھائی لینڈ کے قائم مقام وزیر اعظم پھم تھم وچایچائی نے کہا کہ وہ اصولی طور پر جنگ بندی اور جلد بات چیت پر راضی ہو گئے ہیں۔

تاہم اتوار کو دونوں ممالک نے ایک بار پھر ایک دوسرے پر الزام لگایا کہ وہ امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔

تھائی وزارت خارجہ نے الزام لگایا کہ کمبوڈیا کی فورسز نے سورین صوبے میں شہری گھروں پر گولے داغے ہیں۔

تھائی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ کمبوڈیا نیک نیتی کا مظاہرہ نہ کرے اور بار بار انسانی حقوق اور انسانی قوانین کی خلاف ورزی نہ روکے۔

کمبوڈیا وزارت دفاع کی ترجمان مالی سوچیٹا نے بیان جاری کیا کہ ان کی فورسز نے پہلے فائرنگ نہیں کی، اور تھائی لینڈ پر ’جان بوجھ کر اور مربوط جارحیت‘ کا الزام لگایا۔

تنازع کی شدت

یہ سرحدی تنازع (جو طویل عرصے سے جاری تھا) اس ہفتے جنگ میں تبدیل ہو گیا، جہاں جیٹ طیارے، ٹینک اور زمینی فوجی سرحدی دیہی علاقے میں لڑائی میں مصروف ہیں، یہ علاقہ پہاڑی سلسلوں، جنگلات اور زرعی زمینوں پر مشتمل ہے، جہاں مقامی لوگ ربڑ اور چاول کی کاشت کرتے ہیں۔

تھائی لینڈ کا کہنا ہے کہ اس کے 7 فوجی اور 13 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ کمبوڈیا نے 8 شہری اور 5 فوجی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

تنازع کی وجہ سے تھائی لینڈ کی سرحدی علاقوں سے ایک لاکھ 38 ہزار سے زائد افراد کو نکالا جا چکا ہے، جب کہ کمبوڈیا میں 80 لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نیویارک میں جمعہ کو ہونے والے ہنگامی اجلاس کے بعد، کمبوڈیا کے اقوام متحدہ میں سفیر چھیہ کیو نے کہا کہ ان کا ملک فوری جنگ بندی اور مسئلے کے پرامن حل کا خواہاں ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے ہفتے کے روز دونوں فریقوں سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی پر متفق ہوں اور ایک پائیدار حل کے لیے مذاکرات کریں۔

دونوں فریق ایک دوسرے کو لڑائی شروع کرنے کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، کمبوڈیا نے تھائی افواج پر کلسٹر بم استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے، جب کہ تھائی لینڈ نے الزام عائد کیا ہے کہ کمبوڈیا نے شہری انفرااسٹرکچر، بشمول ہسپتالوں کو نشانہ بنایا ہے۔

یہ لڑائی دونوں ممالک کے درمیان 800 کلومیٹر طویل سرحد کے ان حصوں پر شدید کشیدگی کو ظاہر کرتی ہے، جن پر طویل عرصے سے تنازع چل رہا ہے۔