نقطہ نظر

بھوایا: خواتین کے روپ میں رقص کرتے مرد!

سندھ میں بھوایا صرف رقاص ہی نہیں تھے، وہ سندھ کی روایتی بین المذاہب ہم آہنگی کا ثبوت تھے لیکن بدقسمتی سے اب انتہائی نایاب ہوچکے ہیں۔

رقص انسانی جذبات کے اظہار کا صدیوں پرانا روپ، جسم کی موسیقی، روح کی آواز اور اظہارِ مسرت کا ذریعہ ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خوشی کے اظہار میں پہل ہمیشہ جسم کرتا ہے اور زبان اس کی پیروی کرتی ہے۔ رقص نہ صرف زبان، شعور اور جذبات کا ترجمان بلکہ اس کا مکمل اور جامع اظہار بھی ہے۔ رقص کو ادبی، افسانوی، رومانوی، سماجی، فلسفیانہ زبان میں کئی نام دے کر اس کی اعلیٰ پیمانے پر تشریح اور تعریف کی گئی ہے۔

سندھ کے ایک خوبصورت شاعر حسن درس کا سندھی شعر کچھ یوں ہے کہ،

ھی رقص بےخودی آ،
دیوانگی صدین جی،
ھن میں روانگی آھی ساری رکھیل صدین جی،
دنیا نہ اسان سامھوں بیھ سگھی بدین جی،
چھیرن جی چھماچھم سمجھیم سوال آھی

یہ غزل انہوں نے قونیہ میں مدفن عظیم بزرگ و شاعر مولانا جلال الدین رومی کے مزار پر کیے جانے والے صوفیانہ رقص دیکھ کر لکھی تھی۔ اس کا مفہوم یہی کہ رقص میں صدیوں کی بے خودی و دیوانگی اور دریاؤں کی سی روانی ہے، برائی یا طاقت کی دنیا اس کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتی، چھن چھناتی ہوئی چھیر میں خود ایک سوال موجود ہے۔

شاعر ادیب کیا، افلاطون، ارسطو اور نطشے تک تمام فلسفیوں نے بھی رقص کو زندگی یا زندگی سے جڑے خوبصورت پل میں شمار کیا ہے۔

رقص عمر کے اعتبار سے بھی انسانی شعور کا ہم عمر ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ رقص شروع ہی قدرت، فطرت، دیوی اور دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے ہوا تھا۔ پھر قرون وسطیٰ میں اس رقص پر گرجا گھروں نے پابندی لگادی لیکن بغاوتیں پہروں میں ہی جنم لیتی ہیں، اس طرح رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جانے لگا مگر یہ ضرور ہوا۔

ہم نے رقص سے تمہید اس لیے باندھی ہے کیونکہ اس تحریر میں ان رقاص بھوایوں کا تفصیلی ذکر کرنے والے ہیں جو کبھی سندھ اور جنوبی پنجاب میں عام ہوا کرتے تھے۔

ہو سکتا ہے بھوایا لفظ سن کر قارئین کی اکثریت کے ذہن میں سوال ابھرے کہ یہ کون ہیں؟ کیا چیز ہیں؟ یا شاید انہوں نے بھوایا لفظ ہی کبھی نہ سنا ہو۔ لیکن اگر میں انگریزی لفظ ڈریگ، ڈریگ آرٹ، ڈریگ شو یا ڈریگ پرفارمنس لکھوں تو کافی پڑھنے والوں کو یہ بات سمجھ آ جائے گی کہ یہ ان مرد حضرات کی پرفارمنس کی بات ہو رہی ہے جو خواتین کا روپ دھار کر فن پیش کرتے ہیں۔

امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سے لے کر یورپ اور پھر ایشیائی ممالک جاپان، تھائی لینڈ اور فلپائن میں اس طرح کا ناچ گانا ایک عام اور پسندیدہ تفریح تصور کیا جاتا ہے۔

اس پرفارمنس میں مرد حضرات خواتین کا لباس پہن کر ان ہی کے انداز میں رقص کرتے اور گیت گاتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خواتین جیسے لگیں۔ اب تو یہ فن ڈراموں اور باقاعدہ تھیٹر تک پہنچ چکا ہے۔

ہمارے ملک میں ایسے بےشمار اداکار موجود ہیں تو دور کسی ملک جانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ اداکار عام طور پر رقص یا گانے نہیں گاتے لیکن ان اداکاروں کو ڈریگ ایکٹرز کہا جا سکتا ہے۔ علی سلیم جنہیں عرفِ عام میں بیگم نوازش کہا جاتا ہے جن کے نام سے تو آپ سب واقف ہوں گے، وہ ایک ڈریگ آرٹسٹ ہیں۔ آصف قریشی، زرینہ خان اور شلپا جان پاکستانی ڈریگ فنکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔

سندھ میں رہنے والے ہندو کمیونٹی کے بھوایا مردوں کا کام بھی بالکل ایسا ہی ہوتا تھا اور وہ صدیوں سے اسی قسم کے کرتب دکھا رہے ہیں جیسے یورپ اور امریکا میں ڈریگ ایکٹرز دکھاتے ہیں۔ بھوایا ناچو اکثر سندھ کے میلوں، دیہاتوں میں شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش، ان کے عقیقے سے لے کر خوشی کے ہر موقع پر جا کر ناچ گانا کرتے تھے۔

سندھ میں یہ لوگ مذہبی رواداری کے امین اس طرح ہوا کرتے تھے کہ خوشی کسی بھی گھر میں ہو یہ لوگ ناچ گانے کے لیے پہنچ جاتے تھے۔ مذہب، مسلک، دین دھرم، ذات پات سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا نہ جس در پر آتے اس سے کوئی فرق پڑتا تھا۔ یہ لوگ دوسروں کی خوشی میں شریک ہوکر اس گھرکی خوشی کو چار چاند لگانا جانتے تھے۔

ان بھوایوں میں اکثریت ہندو کولہی اور بھیل برادری کے لڑکوں کی ہوتی تھی۔ وہ نہ تو اتنے خوبصورت ہوتے، نہ جوان اور نہ ہی ان کے جسم اتنے پُرکشش ہوتے تھے لیکن وہ وقتی طور پر عورتوں کا روپ دھار کر اس خوشی میں ناچتے، گاتے، جگتیں مارتے، ہنستے اور ہنساتے۔

ان میں سے کچھ منہ میں مٹی کا تیل ڈال کر ماچس کی تیلی جلا کر منہ کے قریب لاتے اور پھر مٹی کے تیل کی کُلی کرتے جس سے لگتا کہ آگ کا شعلہ ان کے منہ سے نکل رہا ہے۔ میں نے ایسے کئی کرتب سندھ کے دیہات اور میلوں میں دیکھے ہیں۔ بھوایے دوڑ دوڑ کر ناچتے، سر اور تال کے بغیر بھی گانے کی کوشش کرتے تھے جبکہ ان میں بھگتی کے راگ راسوڑے بھی ہوتے تھے اور مارکیٹ میں مشہور ہوتے فلمی اور غیر فلمی مقبول گانے بھی شامل ہوتے تھے۔

بھوایوں کا مقصد یہ ہوتا کہ وقت کے ساتھ بڑھتی افراتفری، تفرقہ، بے چینی، اضطراب کے ماحول میں وہ کچھ گا کر یا می رقصم کا مجسمہ بن کر لوگوں میں خوشیاں بانٹیں، ہاں اس فن کے بدلے میں انہیں کچھ دان بھی مل جاتا تھا جس سے وہ گزر بسر کرتے تھے۔

مرد بھوایا جب عورت کا روپ دھار کر ناچتا، گاتا یا کرتب دکھاتا ہے تو وہاں صرف تفریح نہیں ہوتی بلکہ یہاں تاریخ کی گہرائی، روایات کی رمق اور انسان کے باطن میں چھپے فطری و فکری تضادات ایسے منکشف ہوتے ہیں کہ گویا کوئی صدیوں پرانی داستان یکایک گوشت و پوست کی شکل میں ہمارے سامنے آ کھڑی ہو۔

ان گنت اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں بھوایا رقاص سندھ کے آنگنوں میں ناچنے کو آجاتے حتٰی کہ ہندو بھوایے مسلمان حاجیوں کے حج پر جانے اور آنے کی خوشی کے مواقع پر بھی مسلمانوں کے ساتھ اس خوشی کو مناتے جبکہ چھوٹے مسلمان بچوں کے ختنہ کے موقع پر بھی یہ خود کو ناچنے گانے سے دور نہیں رکھ سکتے تھے۔

اگر بھوایوں کی تاریخ، ان کے رقص کے پس منظر، ان کے مسکن، ذات پات پر غور کیا جائے تو ان کے نشانات ہمیں ہندوستان میں ملتے ہیں۔ گجرات، راجستھان، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور ان ریاستوں کے مذہبی تہوار یا میلے، شادی بیاہ اور خوشی کے تمام مواقع پر یہ مرد حضرات خواتین کا روپ دھار کر ناچتے، گاتے اور اپنا فن پیش کرتے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

بھارت میں بھوائی لوک رقص آج بھی مشہور ہے۔ یہ صرف رقص ہی نہیں یہ ایک قسم کا مقامی تھیٹر تھا جو کہیں بھی سج جایا کرتا تھا جس میں رقص، گیت، جگتیں سب کچھ شامل تھے۔ یہاں جو بھوایا نام مشہور ہوا ہے بہ ظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ بھی اس بھوائی لوک رقص سے آیا ہے۔

بھارت میں بھوائی رقص کا موجد 14ویں صدی کے اسائت ٹھاکر کو مانا جاتا ہے۔ اسائت ٹھاکر کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک برہمن تھا۔ اس وقت کے ایک تھانیدار نے گاؤں میں ہیما پٹیل نامی ایک شخص کی لڑکی کو اغوا کرلیا جس پر اسائت ٹھاکر نے تھانیدار کو یہ کہہ کر چیلنج کردیا کہ یہ بیٹی اس کی ہے۔ سماجی تفریق، ذات پات میں تفریق کا یہ عالم تھا کہ ٹھاکر نچلی ذات کے ساتھ کھا پی بھی نہیں سکتا تھا۔ جب اسائت ٹھاکر نے لڑکی کو اپنی بیٹی مانا تو اس پر شرط لاگو کردی گئی کہ وہ لڑکی کے ساتھ ہی کھائے پیے اور ٹھاکر نے وہ شرط جیسے ہی قبول کی باقی برہمن ٹھاکر کے خلاف ہوگئے جس پر اسائت ٹھاکر نے سماجی برایوں کے خلاف طنزیہ ڈرامے لکھنا شروع کردیے جس سے بھوائی رقص یا تھیٹر کی بنیاد پڑی۔

سات صدیوں پرانی رقص کی رسم جس کی شروعات راجستھان سے ہوئی اور کولہی، بھیل اور نٹ قبیلے کے لوگ اس سے جڑے۔ شروع میں یہ کام مرد حضرات کیا کرتے تھے پھر اس میں خواتین نے بھی حصہ ڈالنا شروع کردیا۔ خواتین نے اس رقص میں ایسے رنگ بھرے کہ وہ پانی کی 7 سے 10، 10 گھاگھریں سر پر رکھ کہ جسم کو توازن میں رکھتے ہوئے ایسے ناچتیں کہ کوئی گھاگھر نہیں گرتی۔ گجرات میں بھوایا برادری آج بھی موجود ہے جنہیں ویاس اور نائک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

کیا مرد کا رقص کرنا تاریخ سے ثابت ہوتا ہے؟ جی یہ درست ہے بلکہ مرد ہی دنیا کا پہلا رقاص ہے تاریخ نوع انسان میں جنگ کے میدان میں سپاہیوں کے حوصلے بڑھانے کے لیے مرد ہی رقص کیا کرتے تھے۔ زرعی سماج پیدا ہونے کے بعد مرد فصل بونے اور کٹائی کے وقت رقص کیا کرتے تھے پھر یہ رقص مرد اور عورتیں دونوں مل کر کرنے لگے۔ آج بھی سندھ میں ایسے گیت اور رقص کو ’ھمرچو‘ کہا جاتا ہے۔

بعدازاں عورت نے اس رقص اور فن کو مزید خوبصورت کردیا۔ پرانے وقتوں میں روحوں، دیوتا، دیویوں کو خوش کرنے کے لیے رقص کی شروعات مرد حضرات نے کی جیسا کہ یونان میں ڈائیوناسس دیوتا کو خوش کرنے کے لیے مرد رقص کرتے تھے۔

سندھ کے میلوں اور دیہی آباد علاقوں سے آنے والے بھوایا لوگوں کا رقص اور ناچ گانا بنیادی طور پر ایک مکمل لوکل تھیٹر کا منظر پیش کرتا تھا۔ یہ رقاص مرد خواتین کا لباس جس میں چولی، گھاگھرا شامل ہے، پہنتے ہیں، سر کے اوپر کڑاہی والی چنری یا بڑی سے خوبصورت چادر اوڑھتے ہیں، بدن پر خواتین کے زیور بھی زیب تن کرتے، گلے میں ایک مخصوص زیور ہانسی پہنا کرتے تھے۔ اگر ہانسی نہیں تو مصنوعی نو لکھے جیسا کوئی ہار یا سونے جیسا دکھنے والی نقلی دہری، زنجیر لاکٹ وغیرہ پہنتے تھے پھر ناک کی پھلی، کانوں میں بڑے چمکیلے جھمکے یا سونے جیسی بالیاں پہنا کرتے تھے، بانہوں میں کلایوں تک چوڑیاں، کلایوں سے اوپر پلاسٹک کے بنے چوڑے جو کاندھے تک جاتے، سب پہنا کرتے تھے۔ چہرے پر لوکل قسم کا میک اپ جس میں فاؤنڈیشن کی جگہ سستے برانڈ کا سفید پاؤڈر، چکمتی پٹیاں یا اس سے ملتی کوئی چیز، ہونٹوں پر سرخی یا لالی پاؤڈر لگاتے تھے۔

میری نسل کے لوگوں نے سندھ کے میلوں اور شادی بیاہ میں لوگوں کے جھرمٹ میں ایسے کئی بھوایے دیکھے ہیں جو منہ سے آگ اُگلتے لوگوں کو کرتب دکھایا کرتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ رقاص اس پیشہ کو چھوڑ کر کھیتی باڑی کرنے یا دیگر کاموں سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ اب میلے اور دیہات ان سے تقریباً خالی ہوچکے ہیں۔ میری ان سے آخری ملاقات اسلام آباد میں لگے ثقافتی میلے میں جنوبی پنجاب سے آنے والے بھوایوں اور فنکاروں سے ہوئی تھی۔

کسی دور میں سندھ میں ان بھوایوں کا مرکز اور مسکن تھرپاکر کے شہر ننگر پارکر کا ایک مخصوص گاؤں ہوا کرتا تھا۔ لیکن بٹوارے سے بھی پہلے انہوں نے اپنا مسکن تبدیل کردیا۔ ان میں کچھ گجرات، راجستھان اور کچھ لوگ جنوبی پنجاب چلے گئے۔ اب اس گاؤں میں کوئی بھوایا نہیں رہتا، البتہ کولہی برادری کی اکثریت اب بھی اس گاؤں میں موجود ہے۔

روپلو کولہی کی سوانح حیات لکھنے والے اور سندھ حکومت کے سابق مشیر برائے انسانی حقوق ویرجی کولہی بتاتے ہیں کہ یہ ان مرد رقاص لوگوں کو بھوایا کا نام بہت بعد میں ملا۔ اصل میں یہ راول کہلاتے تھے اور رقص ان کا پیشہ تھا۔ ان کی سندھ میں پوری برادری تھی۔ سندھ میں اب جو بھوایے ملتے ہیں یہ تو اصل میں ان راولوں کی نقل کرکے اپنا معاشی گزر بسر کرتے ہیں۔ ویرجی کا کہنا ہے کہ ننگرپارکر انہوں نے اصل بھوایوں کی نقل کی ہے، اصل پیشہ ور رقاص راول کہلاتے ہیں جو ننگرپارکر کے ایک گاؤں راول کھوہ میں رہتے تھے۔ یہ ہندوستان پاکستان کے بٹوارے سے بھی کئی سال پرانی بات ہے۔

یہ لوگ اس گاؤں میں اس لیے بس گئے تھے کیونکہ اس گاؤں میں کچھ لوگوں نے کنواں کھودا تو اس میں سے میٹھا پانی نکل آیا۔ آج بھی تھر کے کئی گاؤں میٹھے پانی کے کنویں کے نزدیک رہتے ہیں۔ اس لیے ان پیشہ ور رقاص لوگوں کے گاؤں کا نام ہی راول کھوہ پڑ گیا لیکن بٹوارے سے پہلے یہ لوگ اس گاؤں سے چلے گئے۔ بقول ویرجی مل کے کہ وہ گاؤں اب بھی موجود ہے لیکن اس کا نام تبدیل ہوچکا ہے۔ اب اس گاؤں کو راڑکو کے نام سے پکارا جاتا ہے جس میں اکثر کولہی برادری کے گھر ہیں۔

ویرجی مل کا کہنا ہے کہ ننگر کی یہ راول برادری دیہات، آس پاس کے علاقوں میں تمام لوگوں کو بغیر ذات دھرم دیکھے تفریح مہیا کرتی تھی۔ ان کی ٹولیوں میں کچھ گاتے تھے، کچھ ناچتے تھے، کچھ آگ سے کھیلتے تھے۔ یہ رات کو مشعلیں لے کر سفر کرتے تھے۔

خانہ بدوش قبائل کتاب کے مصنف اور لکھاری خالد کمبہار بتاتے ہیں کہ ’بھوایا اصل میں کولہی اور بھیل برادری کے وہ مرد ہیں جو معاشی گزر بسر کے لیے شادی بیاہ اور میلوں میں ناچنے گانے جاتے ہیں لیکن اب ان کا نام و نشان مٹتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے گندم کی کٹائی کے وقت جب گندم بانٹنے کا وقت آتا ہے تو یہ لوگ اس جگہ پر پہنچ کر ناچ گانے سے لوگوں کو خوش کرکے اپنے حصے کی گندم لے کر چلے جاتے ہیں۔

ننگر پارکر کے بچے کچے بھوایا بھی جنوبی پنجاب میں چلے گئے۔ لکھو بھیل اور کرشن بھیل ان کی نسل میں سے ہیں۔ کرشن بھیل صدارتی ایوارڈ یافتہ فنکار تھے جو رحیم یار خان میں رہتے تھے لیکن معاشی کسمپرسی کی حالت میں وفات پا گئے۔ میں نے ان کے ساتھ آئے بھوایے اسلام آباد کے لوک ورثہ میلے میں دیکھے تھے۔ کرشن بھیل خود بھوانا نہیں بنے انہوں نے ایک اچھے فنکار کی طرح خود کو متعارف کروایا اور وہی ان کا تعارف رہا اسی طرح ان کے علاقے کا ایک موہن میگھواڑ بھی اچھا فنکار ہے۔

سندھ میں بھوایا صرف رقاص ہی نہیں تھے، وہ سندھ کی روایتی بین المذاہب ہم آہنگی کا ثبوت، موہن جو دڑو سے ملی سمبارا کی مورتی کا تسلسل اور سندھ کی روح کا ناچتا ثبوت تھے۔ ان کے فن میں، روایات، ان کی برداشت اور دوسروں کی خوشیوں میں اپنی مسرت کا اظہار جھلکتا تھا۔ بھوایا جب ناچتا تھا تو وہ لمحہ حقیقتاً تاریخ، روایات، تہذیب اور انسانیت کا جشن ہوتا تھا۔


اس تحریر میں شامل تمام تصاویر لکھاری نے مہیا کی ہیں۔

ابراہیم کنبھر

مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر رہ چکے ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔

ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔