پاکستان

پنجاب: بارڈر ملٹری پولیس کی 100 سالہ تاریخ میں پہلی بار خواتین افسران کی بھرتی

اقدام کا مقصد روایتی طور پر مردوں کے زیر اثر قبائلی معاشرے میں خواتین کے حقوق کا تحفظ اور فورس کی عملی صلاحیت کو بڑھانا ہے، خواتین کی شمولیت مثبت تبدیلی لائے گی، حکام

بارڈر ملٹری پولیس (بی ایم پی) نے اپنی 100 سالہ تاریخ میں پہلی بار خواتین افسران کو بھرتی کیا ہے، جو اس کے تنظیمی ڈھانچے میں ایک اہم تبدیلی کی علامت ہے، اس اقدام کا مقصد روایتی طور پر مردوں کے زیر اثر قبائلی معاشرے میں خواتین کے حقوق کا تحفظ اور فورس کی عملی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاریخی طور پر خواتین اہلکاروں کی عدم موجودگی نے خواتین کے خلاف جرائم کی تحقیقات میں سنگین مشکلات پیدا کیں، حالیہ مرد و خواتین کی بھرتی بی ایم پی کی قبائلی علاقوں میں پولیسنگ کے انداز میں ایک بڑے تغیر کی نشاندہی کرتی ہے۔

1998 کے بعد 27 سال کے طویل وقفے کے بعد، بی ایم پی نے دوبارہ بھرتی کا آغاز کیا ہے تاکہ دہشت گردی، اسمگلنگ اور دیگر قانون نافذ کرنے کے فرائض جیسے چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔

تازہ ترین بھرتی مہم میں ڈی غازی خان سے 40 اور راجن پور سے 12 خواتین کو شامل کیا گیا ہے، یہ ایک غیر معمولی قدم ہے جو صنفی شمولیت کی جانب پیش رفت کا اشارہ دیتا ہے۔

راجن پور کے قبائلی علاقے میں پولیٹیکل اسسٹنٹ قاسم گل نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ بارڈر ملٹری پولیس میں خواتین افسران کی شمولیت قبائلی معاشرے میں مثبت سماجی تبدیلی لائے گی۔

یہ نئی بھرتی شدہ خواتین اس وقت پولیس ٹریننگ کالج، ملتان میں 6 ماہ کی جدید تربیت حاصل کر رہی ہیں، جس میں ایلیٹ پولیس کی طرف سے مہیا کردہ خصوصی ماڈیولز شامل ہیں تاکہ ان میں پیشہ ورانہ مہارت اور حربی صلاحیت پیدا کی جا سکے۔

اگرچہ بی ایم پی کے زیر انتظام علاقوں میں جرائم کی شرح پنجاب پولیس کے علاقوں کے مقابلے میں کافی کم ہے، تاہم ایک تربیت یافتہ اور صنفی لحاظ سے متنوع فورس کی شمولیت سے سیکیورٹی کی کوششوں میں نمایاں بہتری کی توقع ہے، خاص طور پر کوہِ سلیمان جیسے خطرناک علاقوں میں، جہاں قانون نافذ کرنے اور منظم جرائم پیشہ نیٹ ورکس کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر اور بی ایم پی کے سینئر کمانڈنٹ عثمان خالد نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ سال 2025 میں بی ایم پی کے دائرہ اختیار میں 134 فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آرز) درج ہوئیں، جن میں 4 ڈکیتی کے مقدمات، 5 ہوائی فائرنگ اور دھمکیوں کے واقعات اور 10 قتل کے مقدمات شامل ہیں۔

فی الحال صرف لادی گینگ تونسہ کے علاقے تمن خوصہ میں سرگرم ہے اور اس کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کالعدم تنظیموں جیسے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے)، یا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کوئی دراندازی سامنے نہیں آئی، نہ ہی مذہبی یا نسلی کشیدگی کے کوئی آثار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک مستحکم اور محفوظ ماحول کو برقرار رکھا گیا ہے، خاص طور پر دیوان پیٹرولیم، ڈھودھک پلانٹ اور دیگر حساس تنصیبات کے گرد سیکیورٹی سخت کی گئی ہے۔