پستے میں مہلک زہریلے مادوں کی نشاندہی کا آسان طریقہ دریافت
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے کہا ہے کہ اس نے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر پستے میں پائے جانے والے مہلک اور سرطان پیدا کرنے والے مرکب افلاٹوکسِن کا پتہ لگانے کے لیے ایک جدید ایٹمی تکنیک تیار کی ہے، جو تیز، سستی اور مؤثر ہے تاکہ اس مقبول میوے کو دنیا بھر میں زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے نے اپنی ہفتہ وار رپورٹ میں کہا کہ اس تکنیک کو مزید ممالک اپنا رہے ہیں۔
آج پستے پہلے سے کہیں زیادہ مقبول ہیں، جن کے بڑے پیداواری ممالک میں ایران، امریکا اور ترکی شامل ہیں، 2022 میں دنیا بھر میں ایک ملین ٹن سے زائد پستے پیدا کیے گئے، اور جیسے جیسے طلب بڑھ رہی ہے، ویسے ہی افلاٹوکسِن کے حوالے سے تشویش بھی بڑھ رہی ہے۔
یہ وہ کیمیائی مرکبات ہیں جو پھپھوندی سے پیدا ہوتے ہیں اور فصلوں کو آلودہ کر سکتے ہیں، افلاٹوکسِن 1960 میں دریافت ہوئے اور انہیں سرطان پیدا کرنے والے مرکبات میں شمار کیا جاتا ہے، جن کا طویل عرصے تک استعمال جگر کے ناکارہ ہونے اور رسولیوں کا سبب بن سکتا ہے۔
آئی اے ای اے فوڈ سیفٹی اینڈ کنٹرول لیبارٹری (ایف ایس سی ایل) کی سربراہ کرسٹینا ولاچو نے کہا کہ ’یہ تکنیک تیز اور سستی ہے اور اس کے لیے مکمل لیبارٹری کی ضرورت نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے دوران کام، ہنگامی حالات میں اور ان ممالک میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘۔
آسٹریا کے سیبرسڈورف میں قائم ایف ایس سی ایل کے ماہرین نے کامیابی سے ایک ایسی ٹول کٹ تیار کی ہے جو محدود وسائل والے ماحول میں افلاٹوکسِن کا پتہ لگا سکتی ہے۔
اس تکنیک میں الیکٹریکل کنڈکٹرز شامل ہیں جو سیرامک سے بنے ہوتے ہیں، کاربن پر مبنی سیاہی سے پرنٹ کیے جاتے ہیں اور ان میں ایک سینسر نصب ہوتا ہے جو افلاٹوکسِن کی چار مختلف اقسام کی نشاندہی کرتا ہے۔
جب اس سینسر کو پوٹینشیوسٹیٹ نامی آلے میں لگایا جاتا ہے تو یہ افلاٹوکسِن کی موجودگی میں ایک ہلکا سا برقی سگنل بھیجتا ہے، جو پھر موبائل فون کے ذریعے ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔
آئی اے ای اے کے مطابق یہ طریقہ اس قابل ہے کہ اجازت یافتہ حد سے 150 گنا کم ارتکاز پر بھی افلاٹوکسِن کا پتہ لگا سکے، اس تکنیک کی تصدیق مائع کرومیٹوگرافی اور ٹینڈم ماس اسپیکٹرو میٹری جیسے حتمی ٹیسٹ کے ذریعے بھی کی گئی ہے۔
پستے کا چھلکا عام طور پر اسے بیرونی آلودگی سے محفوظ رکھتا ہے، لیکن پکنے کے دوران یہ چھلکا پھٹ جاتا ہے، جس سے پھپھوندی اور کیڑوں کا حملہ ممکن ہو جاتا ہے اور افلاٹوکسِن بننے اور آلودگی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
افلاٹوکسِن عموماً ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتے، تاہم پستوں پر پھپھوندی کی ظاہری علامات میں چھلکے یا دانے پر سیاہ یا سیاہی مائل بھورے دھبے یا دھاریوں کی موجودگی شامل ہے۔
ان زہروں کی روایتی جانچ مہنگی، وقت طلب اور ماہر ٹیکنیشنز اور مہنگے آلات کی متقاضی ہوتی ہے۔
آئی اے ای اے نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی افلاٹوکسِن جیسے آلودہ کرنے والے عناصر کے پھیلاؤ کو تیز کر سکتی ہے۔