سروائیکل کینسر کی ویکسین ستمبر سے پاکستان میں دستیاب ہوگی
پاکستان میں 15 سے 44 سال کی عمر کی لاکھوں خواتین کو درپیش سروائیکل کینسر کے خطرے سے بچاؤ کے لیے خوشخبری ہے، ستمبر سے ایچ پی وی ویکسین کی فراہمی شروع کی جا رہی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گیٹس فاؤنڈیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان میں سروائیکل کینسر کی ویکسین ستمبر سے فراہم کی جائے گی۔
ہیومن پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) انفارمیشن سینٹر کے ایک فیکٹ شیٹ کے مطابق، پاکستان میں 15 سال یا اس سے زائد عمر کی 7 کروڑ 38 لاکھ خواتین موجود ہیں، جو سروائیکل کینسر کے خطرے سے دوچار ہیں۔
سروائیکل کینسر، 15 سے 44 سال کی عمر کی خواتین میں دوسرا سب سے زیادہ عام پایا جانے والا کینسر ہے۔
تاہم، ایچ پی وی کی ایک خوراک سے خواتین کو زندگی بھر کے لیے اس مرض سے تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔
گیٹس فاؤنڈیشن کی صنفی مساوات ڈویژن کی صدر ڈاکٹر انیتا زیدی کے مطابق ابتدائی مرحلے میں 9 سے 11 سال کی عمر کی لڑکیوں کو یہ ویکسین دی جائے گی اور بعد میں بڑی عمر کی لڑکیوں کو بھی دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ پاکستان میں سروائیکل کینسر کی اسکریننگ محدود ہے، اس لیے اس بیماری سے بچاؤ ہی بہترین حل ہے۔
یہ اقدام گیٹس فاؤنڈیشن کی اُس عالمی کاوش سے الگ ہے، جس کے تحت وہ 2030 تک خواتین کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے 2 ارب 50 کروڑ ڈالر خرچ کرے گی۔
پیر کو اس عزم کا اعلان کیا گیا، جس کے تحت پانچ اہم مگر مسلسل نظرانداز کیے جانے والے شعبوں میں 40 نئی طبی ایجادات کو سپورٹ کیا جائے گا، خاص طور پر ان مسائل پر توجہ دی جائے گی جو کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں خواتین کو متاثر کرتے ہیں۔
گیٹس فاؤنڈیشن کے چیئرمین بل گیٹس نے کہا کہ خواتین کی صحت میں سرمایہ کاری نسلوں پر اثر ڈالتی ہے، یہ صحت مند خاندانوں، مضبوط معیشتوں اور ایک منصفانہ دنیا کی بنیاد بنتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کی صحت کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے، اسے ناکافی فنڈز دیے جاتے ہیں اور پس پشت ڈال دیا جاتا ہے، بہت سی خواتین اب بھی قابلِ علاج مسائل کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں یا بدترین صحت کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں، یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے، مگر ہم اکیلے یہ کام نہیں کر سکتے۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ خواتین کی صحت پر ہر ایک ڈالر کی سرمایہ کاری، 3 ڈالر کی معاشی ترقی کا باعث بنتی ہے۔
اگر صنفی صحت کا فرق ختم کر دیا جائے تو عالمی معیشت کو ہر سال 2040 تک ایک کھرب ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔
حالانکہ معاشی فوائد واضح ہیں اور یہ ایک سچائی ہے کہ خواتین انسانی نسل کے تسلسل کے لیے ناگزیر ہیں، مگر اس کے باوجود خواتین سے متعلق طبی تحقیق و ترقی پر بہت کم سرمایہ لگایا جاتا ہے۔
2001 میں میک کنزی اینڈ کمپنی کے ایک تجزیے کے مطابق، کینسر سے ہٹ کر خواتین سے متعلق مخصوص امراض پر صرف ایک فیصد تحقیق اور جدت کا کام ہوتا ہے۔
اکیلا ممکن نہیں
ایسی ایجادات کی مثالیں، جو خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں خواتین کو فائدہ دے سکتی ہیں، ان میں چھ ماہ کی انجیکشن والی مانع حمل دوا شامل ہے، جسے خفیہ طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ ان ممالک میں خاص طور پر اہم ہے جیسے پاکستان، جہاں جسمانی خودمختاری جیسے نعرے بھی ناپسند کیے جاتے ہیں۔
گیٹس فاؤنڈیشن پاکستان میں کئی برسوں سے کام کر رہی ہے اور آغا خان یونیورسٹی، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سمیت دیگر اداروں کے ساتھ مل کر مقامی سطح پر صحت، آنتوں کے مسائل اور خواتین کی صحت میں اے آئی جیسے جدید حل پر کام کر رہی ہے۔
بل گیٹس کے مطابق دنیا کے امیر ترین افراد بھی اکیلے کچھ نہیں کر سکتے، حکومت اور نجی شعبے کو خواتین کی صحت سے متعلق ایجادات میں مل کر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کہ ایک مشکل کام ہے اس ملک میں، جہاں مائیں بیٹیوں کے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کو بھی جواز فراہم کر دیتی ہیں، جب زندگی کو ہی انکار کا سامنا ہو، تو غذائیت جیسے مسائل معمولی لگنے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر انیتا زیدی، جو پہلے آغا خان یونیورسٹی میں کام کر چکی ہیں، نے کہا کہ جب میں پاکستان میں پریکٹس کرتی تھی تو مجھے غذائی قلت کے شکار بچے ملتے تھے، جنہیں مختلف طبی مسائل کا سامنا ہوتا تھا۔
ان کے مطابق وہ ماؤں کو مشورہ دیتی تھیں کہ بچوں کو صحیح طریقے سے دودھ پلائیں، لیکن ان کی اپنی صحت اس قدر خراب ہوتی تھی کہ وہ خود کچھ دینے کے قابل نہیں ہوتیں۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ماں کی صحت بہتر نہ ہو، تب تک بچوں کی صحت بھی بہتر نہیں کی جا سکتی، خواتین کی مسلسل نظراندازی نے پاکستان کو نوزائیدہ بچوں کی اموات کے لحاظ سے دنیا میں بدترین ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے، جہاں ہر 25 میں سے ایک بچہ زندگی کے پہلے ماہ میں دم توڑ دیتا ہے۔
اگرچہ خواتین کی صحت کے کئی پہلوؤں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، مگر ڈاکٹر زیدی کے مطابق، اگر صرف ایک پہلو پر توجہ دی جائے تو وہ حمل کے دوران خواتین کی صحت ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حاملہ خواتین کی آنتوں کی صحت انتہائی اہم ہے، کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست غذائی قلت سے ہے۔
خوراک، مناسب کیلوریز اور وٹامنز کی کمی اور ایسا ماحول جو متعدد بیماریوں کا باعث بنتا ہو، آنتوں کی سوزش اور ناقص صحت کا سبب بنتا ہے، جب بیمار خواتین حاملہ ہوتی ہیں تو وہ بھی بیمار بچے پیدا کرتی ہیں اور پھر یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔
ڈاکٹر زیدی نے کہا کہ پاکستان ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ اس حقیقت کو نہ سمجھے کہ خواتین کی ترقی، ملک کی ترقی کا مرکز ہونی چاہیے۔
تاہم، بالآخر یہ ذمہ داری پاکستان کے لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ سول سوسائٹی، پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کے ذریعے خواتین کو درپیش حقیقت کو بدلیں۔