سابق برازیلین صدر بولسونارو سوشل میڈیا پر پابندی کی خلاف ورزی پر گھر میں نظر بند، امریکا کی مذمت
برازیل کی ایک اعلیٰ عدالت کے جج نے سابق صدر جئیر بولسونارو کو سوشل میڈیا پر پابندی کی خلاف ورزی پر پیر کو گھر پر نظر بند کر دیا، جس سے سپریم کورٹ اور دائیں بازو کے اس رہنما کے درمیان جاری محاذ آرائی میں شدت آگئی ہے۔
بولسونارو پر الزام ہے کہ انہوں نے 2022 کے انتخابات میں شکست کے بعد اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کی اور مبینہ طور پر ایک فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کی۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق بولسونارو کے خلاف یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، جس میں عدالت نے ان پر سوشل میڈیا استعمال کرنے پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے اور تیسرے فریق کو بھی ان کے بیانات شیئر کرنے سے روکا گیا ہے، تاہم اتوار کو ان کے حامیوں نے ریو ڈی جنیرو میں یکجہتی ریلی کے دوران ان کی اپنے بیٹے فلیویو بولسونارو کے ساتھ ویڈیو کال کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر شیئر کر دی۔
اس اقدام پر سپریم کورٹ کے جسٹس الیگزینڈر دی مورائز نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’عدالت کو کسی ملزم کے سیاسی یا معاشی اثر و رسوخ کے سبب بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا‘، انہوں نے بولسونارو کی عدالتی احکامات کی مسلسل خلاف ورزی کو بنیاد بنا کر انہیں برازیلیا میں واقع ان کے گھر میں نظر بند کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے مزید ہدایات دیں کہ وہ صرف اپنے وکلا سے ملاقات کر سکیں گے، موبائل فون استعمال نہیں کر سکیں گے اور آئندہ کسی خلاف ورزی کی صورت میں انہیں جیل بھیجا جائے گا، پولیس نے پیر کو ان کی رہائش گاہ سے کئی موبائل فون بھی قبضے میں لے لیے۔
امریکا نے اس عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ویسٹرن ہیماسفیئر افیئرز بیورو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک بیان میں کہا کہ ’وزیرِ عدلیہ الیگزینڈر دی مورائز، جن پر امریکا پہلے ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تحت پابندیاں لگا چکا ہے، برازیلین اداروں کو اپوزیشن کو خاموش کرنے اور جمہوریت کو خطرے میں ڈالنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، بولسونارو کو بولنے دو!‘
اس بیان کو بولسونارو کے بیٹے اور سیاستدان ایڈورڈو بولسونارو نے ری شیئر کیا، جو پہلے ہی واشنگٹن سے برازیل کے خلاف سخت اقدام کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، ایڈورڈو بولسونارو نے ایک علیحدہ پوسٹ میں لکھا کہ ’برازیل اب جمہوری نہیں رہا‘، انہوں نے جسٹس مورائز کو ’پاگل اور بےقابو شخص‘ قرار دیا۔
گزشتہ ماہ جسٹس مورائز نے بولسونارو کو الیکٹرانک ٹریکنگ بریسلٹ پہننے کا حکم دیا تھا اور ان پر سوشل میڈیا پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔
اس اقدام کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے جسٹس مورائز پر امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی اور ان کے امریکی بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے تھے، ٹرمپ نے اسے ’سیاسی انتقام‘ قرار دیا اور بولسونارو کے حق میں کھل کر حمایت کا اظہار کیا۔
اتوار کے روز ریو، برازیلیا اور ساؤ پالو میں ہونے والی ریلیوں میں مظاہرین نے امریکی پرچم لہرائے اور ’تھینک یو ٹرمپ‘ کے پوسٹرز اٹھا رکھے تھے، بولسونارو خود ان ریلیوں میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ عدالت نے انہیں رات اور ہفتے کے اختتام پر گھر پر رہنے کا حکم دیا ہے۔
بولسونارو اور ان کے 7 ساتھیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے 2022 کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو پلٹنے کی کوشش کی، جو فوج کی جانب سے حمایت نہ ملنے کی وجہ سے ناکام ہو گئی، اگر وہ قصوروار قرار پائے تو انہیں 40 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے، یہ مقدمہ آئندہ چند ہفتوں میں مکمل ہونے کا امکان ہے۔
یاد رہے، جنوری 2023 میں بولسونارو کے حامیوں نے برازیلی کانگریس پر دھاوا بولا تھا، جسے امریکا میں 2021 کے کیپیٹل ہل حملے سے تشبیہ دی گئی۔
اگرچہ وہ اگلے انتخابات میں امیدوار نہیں بن سکتے، لیکن بولسونارو 2026 کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی طرز پر سیاسی واپسی کے خواہشمند ہیں، موجودہ صدر 79 سالہ لولا ڈی سلوا نے عندیہ دیا ہے کہ اگر صحت اجازت دے تو وہ چوتھی مدت کے لیے انتخاب لڑ سکتے ہیں، گزشتہ سال انہیں باتھ روم میں گرنے کے باعث دماغی چوٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔