نقطہ نظر

اضافی ٹیرف کی دھمکی: کیا بھارت کو ڈونلڈ ٹرمپ کے جنونی پن سے ڈرنا چاہیے؟

بھارت میں امریکی لابی اتنی وفادار ہے کہ جب صدر ٹرمپ بھارت کی توہین کرتے ہیں یا حملہ کرتے ہیں تو وہ کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہی ٹویٹ میں دو نشانے لگا کر بھارت اور روس دونوں کو بیک وقت پیغامات بھیجے ہیں۔ بھارت کو انہوں نے متنبہ کیا اور نریندر مودی کو روسی تیل خریدنے سے روکنے کی کوشش کی جبکہ یہ اشارہ بھی دیا کہ بھارت کو اس طرح کی کسی مدد کے لیے امریکا سے رجوع کرنا چاہیے۔

اس کے بعد ایک اور ٹویٹ میں پاکستان کے ساتھ امریکا کے مضبوط تعلقات پر خوشی منائی گئی جس نے بھارت کے کھلے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ روس کے لیے ان کی دھمکی زیادہ سنگین اور تشویشناک تھی۔ اگرچہ بھارت اپنے معاملات سے نمٹ رہا ہے لیکن یہ اس کے لیے مزید قابل اعتماد شراکت دار کی تلاش کا موقع ہوسکتا ہے۔

خود کو دنیا کی چوتھی بڑی معیشت قرار دینے والے بھارت کی شماریات ٹرمپ کے ٹیرف پر غم منانے والوں سے بالکل مختلف منظرنامہ پیش کرتے ہیں۔ ملک کا مشتعل ردعمل عوام کو دھوکا دینے کا طریقہ لگتا ہے۔

امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر کے اعداد و شمار زیادہ واضح نشاندہی کرتے ہیں۔ 2024ء میں بھارت-امریکا کے سامان کی کُل تجارت کا تخمینہ 129 ارب 20 کروڑ ڈالرز تھا۔ ان میں سے بھارت کو امریکی سامان کی برآمدات 2023ء میں 3.4 فیصد (ایک ارب 40 کروڑ ڈالرز) زیادہ یعنی 41 ارب 80 کروڑ ڈالرز تھیں۔ 2024ء میں بھارت سے امریکی سامان کی درآمدات 2023ء کے مقابلے میں 4.5 فیصد (3 ارب 10 کروڑ ڈالرز) زیادہ ہیں۔

2024ء میں امریکا کا بھارت کے ساتھ 45 ارب 70 کروڑ ڈالرز کا تجارتی خسارہ تھا یعنی اس نے بھارت سے فروخت کی نسبت زیادہ خریدا جوکہ 2023ء کے مقابلے میں 5.4 فیصد زیادہ تھا۔ بھارت کی امریکا کو اہم برآمدات میں ادویات، جواہرات اور زیورات، کپڑے اور ٹیکسٹائل اور نامیاتی کیمیکلز شامل تھیں۔ لہٰذا ٹرمپ کے دھمکی آمیز ٹیرف کے بارے میں ظاہر کیا جانے والا ردعمل بہت زیادہ ہے۔ اور میں بتاتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے۔

نومبر 2020ء میں اپنی دوسری مدت کے آغاز کے چند ماہ بعد، مودی حکومت نے ایک جرأت مندانہ فیصلہ کیا جس کے تحت بھارت نے چین کی قیادت میں علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر سی ای پی) میں شامل نہ ہونے کا انتخاب کیا۔

چین کے بہت سے حریفوں نے اس میں شمولیت اختیار کی جن میں جاپان اور ویتنام شامل ہیں لیکن بھارت اس کا حصہ نہیں بنا۔

آر سی ای پی کے خلاف مودی کی غلط تجویز پر کیے جانے والے فیصلے کی وجہ سے انڈو-پیسیفک خطے میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ اسٹریٹجک اثر و رسوخ کے اہم مواقع ضائع ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے خاص طور پر بھارت کو مارکیٹ تک رسائی میں اضافہ، سرمایہ کاری کے مواقع اور علاقائی سپلائی چینز میں مضبوط کردار سے محروم کیا۔

پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کی رپورٹس میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ بھارت آر سی ای پی میں شامل ہوکر آمدنی اور جی ڈی پی میں فائدہ اٹھا سکتا ہے جبکہ سالانہ اسے 60 ارب ڈالرز کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ مودی کے فیصلے کے پیچھے کی وجوہات پوری طرح سے حقیقی نہیں لگتیں۔

بھارتی عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ آر سی ای پی میں شامل ہونے سے سستی درآمدات سے مسابقت بڑھنے سے مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا، ممکنہ طور پر ملازمتوں اور مینوفیکچرنگ پر اثر پڑے گا۔ لیکن اگر یہ سچ تھا جوکہ مشکوک لگتا ہے تو پھر ٹرمپ کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا وہ بھارتی روزگار اور مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے میں مدد کررہے ہیں؟

لیکن اگر مسابقت کی وجہ سے بھارت پیچھے ہٹا تو بھارت کو کیا لگتا ہے کہ وہ برکس میں کیا کررہا ہے جس کے اہم سربراہی اجلاس کی صدارت آئندہ سال اسے ہی کرنی ہے؟ برکس ایک تیزی سے بڑھتا ہوا طاقتور اقتصادی گروپ ہے جو ڈالر کی برتری کو چیلنج کرتا ہے۔ لہٰذا ایسے طاقتور گروپ کا حصہ بننا اور آر سی ای پی سے گریز کرنا بےمعنی لگتا ہے۔ مودی کے مشیروں کو اس قسم کی منطق کے ساتھ مقامی کنڈرگارٹن میں بھی داخلہ نہیں ملے گا۔

بھارت کے فیصلے کے پیچھے اصل وجہ شاید اس کی امریکا نواز لچکدار لابی کا مضبوط اثر و رسوخ ہے جس نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سے ہی ملک کی سمت کو تشکیل دیا ہے۔ یہاں لچکدار سے مراد ایسی سخت چیز ہے جو ہتھوڑے جیسے مضبوط وار سہ سکتی ہے اور صرف اپنی شکل تبدیل کرسکتی ہے لیکن یہ کبھی ٹوٹتی نہیں۔ بھارت کی امریکی لابی ایسی ہی ہے۔ امریکا پر اس کا یقین غیرمتزلزل ہے اور وہ وفادار ہے چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ یہ امریکا کے ساتھ تقریباً ایک دیوتا کی طرح برتاؤ کرتی ہے جس کی حمایت بھارتی اشرافیہ کے لیے دولت اور بقا کی کلید ہے۔

یہ لابی امریکا کی اتنی وفادار ہے کہ جب صدر ٹرمپ بھارت کی توہین کرتے ہیں یا حملہ کرتے ہیں تو وہ کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ لابی کہتی ہے کہ جس دیوتا (امریکا) پر وہ یقین رکھتے ہیں وہ انہیں مایوس نہیں ہونے دے گا۔ ان وفاداروں نے خاموشی سے خود پر لگنے والے الزامات کا مشاہدہ کیا مثال کے طور پر انہوں نے اس دیوتا کو اپنے ساتھی بھارتیوں کو زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑتے دیکھا جس کی طاقت کی وہ پرستش کرتے ہیں۔

ان میں سے کچھ کو تو ملٹری طیاروں میں سوار کرکے میڈیا کی نظروں سے چھپا کر دہلی بھی پہنچایا گیا۔ جب تارکین وطن کے یہ پریشان کن واقعات سامنے آئے تو امریکا نواز لابی نے کوئی تشویش ظاہر نہیں کی۔ ’یہ مندر کا اصول ہے۔ ہم کیا کرسکتے ہیں؟‘ دیوتا کے گُن گاتے ہوئے ایک عبادت گزار نے آواز بلند کی جس کے بچے بھی امریکا میں ہیں۔

حال ہی میں آپریشن سندور اور بنیان المرصوص کی اٹھتی دھول اور افراتفری میں اس دیوتا کی آواز انسانی زیادہ لگنے لگی ہے۔ اس نے بار بار دونوں فریقین پر زور دیا ہے کہ اس نے جنگ رکوائی ہے جس نے امریکا نواز بھارتی لابی کوپریشان کیا ہے۔ ان کا دیوتا اب کہتا ہے کہ اس نے امن ساز کا اعزاز جیت لیا ہے جو نوبیل انعام تو نہیں لیکن یہ نوبیل انعام جیتنے میں مدد ضرور کرے گا۔

بھارتی قیادت کہتی ہے کہ جنگ بندی ان کے کہنے پر ہوئی ہے دیوتا کے نہیں۔ لیکن انہوں نے واضح نہیں کیا کہ اگر وہ جیت رہے تھے تو انہوں نے جنگ کیوں روکی۔ وزیر اعظم مودی کو جنگ بندی کا ٹرمپ کا ورژن قبول نہیں یا کم از کم بہار میں انتخابات سے قبل تو وہ کچھ قبول نہیں کرنے والے ہیں۔

تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ اچھے انداز میں ڈیل نہیں کیا۔ وہ زیادہ شفاف معاہدے کے مستحق تھے۔ اگر برکس اور آر سی ای پی یہ کام کرتے ہیں تو اس کے راستے میں امریکی لابی رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری حساب کتاب بھی ہے۔ اگر بڑی معیشتیں ڈالر سے دور ہوجاتی ہیں تو بہت سے لوگ اپنے ظاہر یا خفیہ اثاثے نہیں بنا پائیں گے۔

ٹرمپ کا ماسکو کو پیغام اس سے بھی زیادہ دھمکی آمیز تھا۔ جس طرح امریکی لابی ٹرمپ کے غصے کے لیے مودی کی انا کو مورد الزام ٹھہراتی ہے جبکہ برکس کے اصل مسئلے پر کسی بھی ذکر سے گریز کرتی ہے، روس کے ساتھ تناؤ کو بھی گمراہ کن انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اسے برکس جیسے گہرے مسائل کے بجائے ٹرمپ اور سابق روسی صدر دمتری میدویدیف کے درمیان الفاظ کی جنگ سے جوڑا جارہا ہے۔

مغرب دہائیوں سے ماسکو پر بڑا حملہ کرنے کے طریقے تلاش کررہا ہے اور ٹرمپ نے روس کی سمندری سرحدوں کے قریب ایٹمی ٹرائیڈنٹ میزائلوں سے لیس آبدوزیں بھیج کر اس خطرے کو مزید تقویت دی ہے۔

بھارت کے برعکس روس نے سخت جواب دیا۔ اس نے ٹرمپ کو ’ڈیڈ ہینڈ‘ کے خطرے کے بارے میں یاد دلایا جوکہ ایک پرانا سوویت نظام ہے جو مغرب میں خود بخود ہزاروں جوہری میزائل داغنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ اگر مغرب کی جانب سے روسی قیادت پر حملہ ہو تو روس کا ردعمل بھی سخت ہو۔

روس کی طرح بھارت کو بھی ٹرمپ کے جنونی پن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن امریکا نواز لابی ان بڑی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے سخت محنت کررہی ہے جن کی بھارت کی خارجہ پالیسی کو شدید ضرورت ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔