ترکمانستان میں ’جہنم کا گڑھے‘ کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی، سیاح مایوس لوٹنے لگے
ترکمانستان کے وسطی صحرائے ’قراقُم‘ میں موجود مشہور ’گیٹ وے ٹو ہیل‘ (جہنم کا دروازہ) گیس کے دہکتے گڑھے کی جانب آنے والے سیاح اب مایوس لوٹ رہے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کبھی آگ کے شعلوں اور دہکتے انگاروں سے بھرے اس 70 میٹر (230 فٹ) چوڑے گڑھے کو دیکھنے آنے والے لوگ اب صرف ایک سیاہ گڑھا دیکھ پاتے ہیں، جس میں چند مقامات پر معمولی شعلے باقی ہیں۔
50 برس تک شعلوں کی لپیٹ میں رہنے کے بعد ترکمانستان کی حکومت نے اب آخرکار اس آگ کو بجھانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، جو فضا میں میتھین گیس کی بڑی مقدار خارج کرتی رہی ہے۔
اشک آباد سے 5 گھنٹے کا سفر طے کر کے آنے والی 35 سالہ خاتون ایرینا نے کہا کہ’میں کچھ مایوس ہوئی ہوں، انٹرنیٹ پر ہم نے جو تصاویر دیکھی تھیں وہ بہت شاندار تھیں، بڑے بڑے لپکتے شعلے دکھائے گئے تھی، اب اندازہ ہوا کہ وہ پرانی تصاویر تھیں، حقیقت مختلف ہے’۔
آگ کو کم کرنا ترکمانستان کے ماحولیاتی اہداف کا اہم حصہ ہے، بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق ترکمانستان گیس کے اخراج کے باعث دنیا کا سب سے بڑا میتھین خارج کرنے والا ملک ہے، اور اب اس نے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی کا وعدہ کیا ہے۔
لیکن اس اقدام کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ یہ گڑھا، جو برسوں سے ملک کی سب سے مشہور سیاحتی کشش رہا ہے، اب اپنی شناخت کھو رہا ہے، گیس کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے اس کے آس پاس کئی نئے کنویں بھی کھودے گئے ہیں۔
ریاستی توانائی کمپنی ترکمان گیس کی ایک ڈائریکٹر ایرینا لوریئیوا، نے جون میں ایک کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’پہلے اس گڑھے کی آگ کا دہکتا ہوا شعلہ کئی کلومیٹر دور سے دکھائی دیتا تھا، اسی وجہ سے اسے ’دوزخ کا دروازہ‘ کہا جاتا تھا، مگر اب صرف ایک مدھم سی چمک باقی رہ گئی ہے‘۔
اشک آباد سے گڑھے تک جانے والا راستہ بھی خراب حالت میں ہے، جگہ جگہ دراڑیں اور گڑھے ہیں جو سیاحوں کے لیے اس سفر کو مزید دشوار بنا دیتے ہیں۔