نقطہ نظر

سیلاب کی تباہ کاریاں: ’میں نے اپنے گاؤں کو لمحوں میں غائب ہوتے دیکھا‘

اپنے کئی رشتہ داروں کو سیلاب میں کھونے والے ایک رہائشی کامران خان نے بتایا، 'جب بھی ہمیں گلنے سڑنے والی لاشوں کی بو آتی ہے تو ہم کھدائی شروع کر دیتے ہیں'۔

بٹائی میں بونیر کے پیر بابا بازار سے چند کلومیٹر بالائی جانب، سیکڑوں سوگواران ہفتے کو علی الصبح چمکتی ہوئی دھوپ میں ندی کے کنارے جمع ہوئے تاکہ ایک دن پہلے آنے والے تباہ کن سیلاب میں جاں بحق ہونے والے 40 سے زائد افراد کی اجتماعی تدفین کی جا سکے۔

ارد گرد کے دیہات کے لوگ عارضی جنازہ گاہ میں جمع ہوئے جوکہ سیلاب سے تباہی کا سامنا کرنے والے مکئی کے کھیتوں پر قائم کیا گیا تھا۔ اس زمین پر ایک موٹی مٹی کی تہہ بیٹھ چکی ہے جسے سیلاب نے اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔

مرحومین کی میتیں دو قطاروں کی صورت میں رکھی گئی تھیں۔ کچھ چارپائیوں پر دو دو لاشیں رکھی گئی تھیں جبکہ کفن پر خون کے دھبے اب بھی واضح تھے۔ گاؤں والے آخری جھلک دیکھنے کی کوشش میں تھے جبکہ بزرگ، نوجوانوں کو تصاویر یا ویڈیوز بنانے سے روکنے کی کوشش کررہے تھے۔

اچانک اس بےسکونی کو خواتین کے گروپ نے بڑھایا جو اپنے رشتہ داروں کو الوداع کہنے پہنچی تھیں۔ ’ہجوم میں سے کسی کی آواز بلند ہوئی، ’موبائل ریکارڈنگ نہ کرو‘، جبکہ کچھ کہتے نظر آئے کہ ’خواتین یہاں کیا کررہی ہیں؟ انہیں یہاں نہیں ہونا چاہیے‘۔

ایک مقامی بزرگ جہاں بار نے سوگواران پر زور دیا کہ وہ تدفین کے بعد گھر واپس نہ جائیں۔ ’ہمارے خاندان کے افراد اور دوستوں کی لاشیں قادر نگر سے لے کر ڈگر تک ملبے اور ریت کے نیچے اب بھی دبی ہیں اور ہمیں انہیں اس طرح نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہم تلاش جاری رکھیں گے اور انہیں وہ مناسب تدفین دیں گے جس کے وہ مستحق ہیں‘۔

نماز جنازہ سے پہلے میں نے لاشوں کی قطاروں کے پاس کھڑے حیران و پریشان مختیار خان کو دیکھا۔ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک بٹائی سے چند کلومیٹر بالائی جانب واقع گاؤں قادر نگر کے رہائشی مختیار نے بتایا کہ اس تباہ کُن سیلاب میں انہوں نے اپنے خاندان کے 11 افراد کو کھویا ہے جن میں ان کے بھتیجے، بھانجی اور بہو شامل ہے۔

ان کے خاندان کے 35 افراد یا تو لاپتا ہیں یا وہ مر چکے ہیں۔ انہوں نے نرمی سے کہا، ’میرے خاندان کے 7 افراد کی میتیں یہاں نمازِ جنازہ کے لیے موجود ہیں‘۔ انہوں نے اسے اللہ کی رضا قرار دیا اور کہا کہ باحیثیت مسلمان وہ اس پر راضی ہیں جو ان کا مقدر ہے۔

بعدازاں سوگواران نے خواتین کی موجودگی پر ہونے والی بحث کو ختم کیا اور نمازِ جنازہ کے بعد میتوں کو وہاں لے جایا گیا جہاں خواتین موجود تھیں تاکہ وہ مردانہ نظروں سے دور میتوں کا آخری دیدار کرسکیں۔

ہم نمازِ جنازہ کے بعد بٹائی کلے روڈ پر چلتے رہے اور پھر الخدمت فاؤنڈیشن کے ایک رضاکار نے ہمیں ندی کے پار تھوڑا لمبا راستہ لے کر ملک پور لے جانے کی پیشکش کی جہاں سے ضلع میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ گاؤں، بیشونائی تک پہنچنے کے لیے مزید ڈیڑھ گھنٹہ پیدل چلنا تھا۔

نربٹوال اور دیگر بستیوں سے گزرتے ہوئے ہمیں ہر طرف تباہی دیکھنے کو ملی۔ کئی فٹ کیچڑ اور ملبے سے بھری ہوئی دکانیں، ٹوٹی ہوئی بجلی کی تاریں اور اُکھڑے ہوئے کھمبے زمین پر بکھرے پڑے تھے جبکہ لوگ اپنے تباہ شدہ مکانات کے سامنے ڈھیر میں سے اپنی اشیا اکٹھا کررہے تھے۔ گاڑیاں بھی سڑک کے کنارے تباہ حالی کا منظر پیش کررہی تھیں۔

ملک پور کے داخلی راستے پر پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں جہاں سے صرف پیدل جانے والوں کو آگے جانے کی اجازت تھی کیونکہ عملے نے اوپر کی سڑک کو صاف کیا تھا۔ کاوگا ندی کے ساتھ ساتھ چڑھائی کے راستے پر مقامی لوگوں، رضاکاروں، سیلاب میں زندہ بچ جانے والوں اور تماشائی موجود تھے۔

بیشونائی جو کبھی اسی نام کی ندی کے کنارے پھیلا ہوا ایک زندہ دل گاؤں تھا، اب بڑے بڑے پتھروں کے نیچے دب چکا ہے۔ خوفناک خاموشی میں تباہ شدہ گھروں کے صرف ٹکڑے نظر آرہے تھے۔ تین مقامات پر علاقہ مکین اپنے ہاتھوں اور جو بھی اوزار انہیں مل سکے، ان کی مدد سے پتھروں کی کھدائی کرتے نظر آئے۔ اپنے کئی رشتہ داروں کو سیلاب میں کھونے والے ایک رہائشی کامران خان نے بتایا، ’جب بھی ہمیں گلنے سڑنے والی لاشوں کی بو آتی ہے تو ہم کھدائی شروع کر دیتے ہیں‘۔

تباہی کے 24 گھنٹے بعد ہفتہ کی دوپہر تک بھی کوئی سرکاری مشینری بیشونائی نہیں پہنچی تھی۔ کامران نے بتایا کہ ان کا گھر اونچی ڈھلوان پر واقع ہے جہاں سے انہوں نے اپنے گاؤں کو چند لمحوں میں غائب ہوتے دیکھا۔ انہوں نے بتایا، ’جمعہ کی صبح موسلادھار بارش ہو رہی تھی، پھر اچانک اندھیرا چھا گیا، اس کے بعد ایک ہلچل شروع ہو گئی۔ چند منٹوں میں، پورا گاؤں ختم ہوچکا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ یہ گاؤں جس میں 120 سے زائد گھر نہیں تھے، وہاں 80 سے زیادہ جانیں جا چکی ہیں۔ ’بہت سے لوگ ابھی تک نہیں جانتے کہ ان کے رشتہ دار مر چکے ہیں یا زندہ ہیں‘۔

ایک اور رہائشی انور خان نے بتایا کہ ان کے خاندان کے کم از کم 12 افراد لاپتا ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ مقامی لوگوں نے 14 اگست 1995ء کو ندی میں آنے والے شدید سیلاب کو یاد کیا لیکن گاؤں کے انتہائی بزرگ رہائشیوں کو بھی ایسی کوئی خوفناک تباہی یاد نہیں جو ماضی میں جمعہ کے سیلاب کی وجہ سے ہوئی۔

ایک اور رہائشی حیدر علی نے ڈان کو بتایا کہ پتھروں اور کھنڈرات کے درمیان چلتے لوگ صدمے میں تھے۔ ’یہ ایک زندہ دل گاؤں تھا۔ لوگ اب بھی ہمارے پیروں کے نیچے ملبے میں دبے ہو سکتے ہیں۔ یہاں کوئی بھلا نارمل کیسے ہو سکتا ہے؟‘

انہوں نے بتایا کہ کہ ایسا لگتا ہے کہ سیلاب کا آغاز نارے گھر سے شمال کی جانب ہوا جو کہ نہ رکنے والی طاقت کے ساتھ ڈھلوانوں پر چلتا رہا۔ ارشاد علی اور اکبر زادہ نامی اساتذہ نے سرکار کی عدم موجودگی پر برہم ہوتے کہا، ’مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں، فلاحی ادارے مدد کر رہے ہیں لیکن حکومت کہیں نہیں ہے۔ ان کے پاس فوجی آپریشن کے لیے درجنوں ہیلی کاپٹر موجود ہیں لیکن امداد کے لیے ایک بھی نہیں‘۔

پیر بابا کے رہائشی رضوان باچا نے بتایا کہ اس نے گزشتہ رات ندی کے کنارے اور ملبے تلے لاشوں کی تلاش میں گزاری۔ ’ہم نے قادر نگر سے 27 لوگوں کی لاشیں برآمد کیں‘۔

ضلع کا سب سے مصروف تجارتی مرکز پیر بابا بازار اس وقت تقریباً تباہ ہو چکا تھا کہ جب پچھے نالہ اس کے کنارے پر پھٹا۔ دکانیں اور بازار کئی کئی فٹ گاد سے بھر گئے جس سے تمام سامان تباہ ہوگیا۔ پیر بابا روڈ کے داخلی راستے پر بھی موبائل سگنلز ختم ہوگئے جبکہ صرف سرکاری اور ریسکیو کی گاڑیوں کو ہی پولیس بیریکیڈ سے گزرنے دیا گیا۔ بازار سے گزرنا کیچڑ کی تہہ پر چلنے کے مترادف تھا۔

جمروز علی جو وہاں جوس کی دکان چلاتے تھے، یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’ہم ناشتہ کر رہے تھے کہ پانی بہت تیزی سے آیا اور ہر چیز ریت اور ملبے سے بھر گئی‘۔ وہ اور ان کا خاندان چھت پر چڑھ گیا تھا اور کئی گھنٹوں تک وہیں محصور رہا۔

پیر بابا بازار کا نام علاقے کے ایک معزز بزرگ سید علی ترمذی سے منسوب ہے جنہیں پیار سے پیر بابا کہا جاتا ہے۔ ان کا مزار جوکہ پچھے ندی کے قریب واقع ہے، پورے پاکستان کے زائرین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ جمعہ کی صبح سیلاب کا پانی پیر بابا کے مزار کے ساتھ والی مسجد میں بھی داخل ہوا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

منظور علی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔