شامی جنگجو افغانستان منتقل ہوکر علاقائی خطرات پیدا کرسکتے ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی 2025 کی انسدادِ دہشت گردی رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ دسمبر 2024 کی مہم میں سابق شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے جنگجو افغانستان منتقل ہو سکتے ہیں اور وہاں سے علاقائی خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری جنرل یو این کی اس رپورٹ نے پاکستان کو بین الاقوامی برادری پر زور دینے پر آمادہ کیا ہے کہ وہ ایک عالمی انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی اختیار کرے۔
یہ رپورٹ بدھ کے روز سلامتی کونسل کے سامنے پیش کی گئی، جس میں اس خطرے کو اجاگر کیا گیا جو داعش خراسان (آئی ایس آئی ایل-کے) کی جانب سے لاحق ہے، یہ گروہ افغانستان اور وسیع تر جنوبی و وسطی ایشیائی خطے کے لیے سب سے سنگین چیلنجز میں سے ایک بنا ہوا ہے اور اس کے لگ بھگ 2 ہزار جنگجو موجود ہیں۔
سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سفیر عاصم افتخار احمد نے افغانستان کو غیر مستحکم قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ داعش خراسان پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
پاکستان نے عالمی برادری سے عالمی انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی اپنانے کی اپیل کی، انہوں نے کہا کہ ہمارا اصل مخالف خطے میں پاکستان کے خلاف سرگرمی سے دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے، یہ دہشت گرد پراکسیوں کو مالی معاونت فراہم کرتا ہے اور سرحد پار قتل و غارت میں ملوث ہے۔
پاکستان نے یہ بھی خبردار کیا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ کے درمیان تعاون خطرناک ہے، کیوں کہ یہ گروہ دہشت گردی کے تربیتی کیمپ شیئر کرتے ہیں، اہم ڈھانچوں اور اقتصادی منصوبوں کو نشانہ بناتے ہیں اور سب سے المناک بات یہ ہے کہ عام شہریوں کو ہدف بناتے ہیں۔
پاکستان کے سفیر عاصم افتخار احمد نے تحریکِ طالبان پاکستان کو افغان سرزمین سے کام کرنے والا سب سے بڑا اقوامِ متحدہ کی جانب سے نامزد دہشت گرد گروہ قرار دیا جو براہِ راست پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقریباً 3 ہزار جنگجو شام میں اب بھی سرگرم ہیں، جو دوبارہ اپنی کارروائی کی صلاحیت بحال کرنے اور مقامی سیکیورٹی خلا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور ان میں سے کچھ افغانستان منتقل ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں شمال مشرقی شام کے کیمپوں میں قید دسیوں ہزار افراد پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا، جن میں سے بہت سی خواتین اور بچے مبینہ طور پر داعش سے منسلک ہیں، غیر محفوظ حالات میں طویل عرصہ قید رہنے سے انتہا پسندی کا خطرہ بڑھتا ہے، جس کے باعث ان افراد، خصوصاً بچوں کی محفوظ، رضاکارانہ اور باعزت واپسی کی اپیل کی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے عہدیداران نے خبردار کیا کہ داعش نوجوانوں کو بھرتی کرنے، فنڈز جمع کرنے اور پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے ڈیجیٹل ذرائع اور مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا استعمال کر رہا ہے، جس سے ایک پیچیدہ اور کثیرالجہتی خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔
پاکستانی سفیر نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے جامع نقطۂ نظر اپنانے پر زور دیا، جس میں ریاستی جبر اور قبضے جیسے بنیادی عوامل کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
انہوں نے اجتماعی سزا، انسانی حقوق کی پامالی، آبادیاتی تبدیلیوں اور بھارت کے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسدادِ دہشت گردی کے بیانیے کے غلط استعمال کی مذمت کی، اور زور دیا کہ دہشت گردی کو ان عوامی جدوجہدوں سے الگ کیا جانا چاہیے جو غیر ملکی قبضے کے خلاف کی جاتی ہیں۔
انہوں نے اقوامِ متحدہ کے انسدادِ دہشت گردی ڈھانچوں میں موجود جانبداری پر بھی تنقید کی اور کہا کہ تمام فہرستوں میں صرف مسلمان افراد کے نام شامل ہیں، جب کہ غیر مسلم انتہا پسند اکثر نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ناقابلِ فہم اور درحقیقت ناقابلِ قبول ہے کہ سلامتی کونسل کی دہشت گردی فہرست میں ہر نام مسلمان ہے، جب کہ دوسرے دہشت گرد اور پرتشدد انتہا پسندوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہ تبدیل ہونا چاہیے۔