دنیا

انڈونیشیا میں کان پھاڑ دینے والی گلی محلوں کی ’حرام‘ تقریبات پر پابندی عائد

مشرقی جاوا کے باشندوں نے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز شیئر کیں، جن میں شور کی شدت سے دیواروں میں دراڑیں پڑنے، ٹائلیں گرنے اور دکانوں کو نقصان پہنچنے کے مناظر دکھائے گئے۔

انڈونیشیا میں ایک گاؤں کے لوگ دیکھتے رہ گئے، جب لاؤڈ اسپیکروں کا بلند و بالا ٹرک پر نصب ٹاور ان کے عموماً پُرسکون علاقے سے گزرا اور اتنے زور دار بیس کے ساتھ گونجا کہ کھڑکیاں تک چٹخ گئیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا کے سب سے بڑے جزیرے جاوا میں لاؤڈ اسپیکر ٹاور عام ہیں، جو گلی محلوں کی تقریبات میں مسلسل الیکٹرانک دھنوں اور روایتی لوک موسیقی چلاتے ہیں، لیکن ان کا یہ شوق حکام اور سکون کے متلاشی پڑوسیوں کے لیے وبالِ جان بن گیا ہے۔

یہ لاؤڈ اسپیکر ٹاور اتنے خلل ڈالنے والے ثابت ہوئے کہ حکام نے اس ماہ ان کے استعمال پر پابندیاں لگا دی ہیں، جب کہ مذہبی اداروں نے بھی ان کے حد سے زیادہ اور نقصان دہ شور کو ’حرام‘ قرار دیا ہے۔

مشرقی جاوا کے ضلع نگانترو گاؤں کے رہائشی احمد سُلیات نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ آواز دن ایک بجے سے رات 3 بجے تک گونجتی رہتی ہے، وہ اونچی آواز میں موسیقی بجاتے ہیں اور شراب پیتے ہیں، یہ واقعی بہت پریشان کن ہے۔

مشرقی جاوا کے انڈونیشی باشندوں نے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز شیئر کیں جن میں شور کی شدت سے دیواروں میں دراڑیں پڑنے، چھت کی ٹائلیں گرنے اور دکانوں کو نقصان پہنچنے کے مناظر دکھائے گئے ہیں، اس شور کو مقامی زبان جاوی میں ’ساؤنڈ ہورِگ‘ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ’ہلنا یا لرزنا‘۔

آن لائن عوامی ردعمل کے باعث مشرقی جاوا کی حکومت نے اس ماہ ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں شور کی حد مقرر کی گئی اور یہ طے کیا گیا کہ لاؤڈ اسپیکرز کس وقت اور کہاں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

مشرقی جاوا کی گورنر خفیفہ اندر پراوانسا نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ فیصلہ صحت اور سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر کیا گیا، شور کی سطح کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے تاکہ عوامی سکون و امان میں خلل نہ پڑے۔

سماعت کے مسائل

کان پھاڑ دینے والا شور صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے، جن میں دل کی بیماریوں کے امکانات میں اضافہ شامل ہے، انڈونیشیا کے یہ لاؤڈ اسپیکر ٹاور محض ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے مقبول ہوئے ہیں، بعض اوقات مہلک نتائج بھی پیدا کر چکے ہیں۔

اس ماہ ایک خاتون کی موت واقع ہوگئی تھی، جب مبینہ طور پر وہ کارنیوال میں لاؤڈ اسپیکر ٹاورز کی آواز سے دل کا دورہ پڑنے کا شکار ہوئیں، جب کہ ایسے اجتماعات میں شریک افراد کے سماعت کے مسائل میں اضافہ رپورٹ ہوا ہے۔

مشرقی جاوا حکومت نے آواز کی حد 120 ڈیسِبل مقرر کی ہے، جب کہ پریڈز یا مظاہروں میں استعمال ہونے والے موبائل یونٹس کو 85 ڈیسِبل تک محدود کر دیا گیا ہے، مزید یہ کہ موبائل یونٹس کا استعمال اسکولوں، ہسپتالوں، ایمبولینسوں اور عبادت گاہوں کے قریب، جب وہ سرگرم ہوں، ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

جولائی میں ایک مقامی اسلامی کونسل نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا کہ اگر کسی تقریب میں آواز اتنی زیادہ ہو کہ نقصان پہنچائے، تو وہ مذہباً ممنوع (حرام) ہے۔

فتوے میں کہا گیا تھا کہ شادی کے دوران بارات یا کسی بھی دوسرے ایونٹ میں آواز کا حد سے زیادہ استعمال، جو سڑک استعمال کرنے والوں کو پریشان کرے یا لوگوں کو عبادت سے غافل کر دے، حرام ہے۔

مقامی لوگ عام طور پر شادیوں، بچوں کے ختنہ اور یوم آزادی کی تقریبات کے لیے یہ اسپیکر ٹاور کرائے پر لیتے ہیں، یہ جشن اکثر رات بھر جاری رہتے ہیں۔

داینی جیسے کچھ انڈونیشیا کے شہری سمجھتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر مقامی روایت ہیں اور انہیں برقرار رہنا چاہیے۔

انہوں نے اپنے پھٹے ہوئے شیشے کی طرف دیکھا، جسے ٹیپ سے جوڑا گیا تھا، جب کہ ٹرک سے اونچی آواز میں موسیقی گونج رہی تھی۔

61 سالہ خاتون نے کہا کہ یہ شیشہ پچھلے سال ایک ساؤنڈ ہورِگ ایونٹ کے دوران ٹوٹ گیا تھا، لیکن کوئی بات نہیں، یہاں کے لوگ اونچی آواز والے ایونٹس پسند کرتے ہیں۔

کمزور نفاذ

لاؤڈ اسپیکرز اب بھی نئی حد سے تجاوز کرتے ہوئے بجائے جا رہے ہیں، کیوں کہ مقامی حکام قوانین پر سختی سے عمل نہیں کرا رہے، حکومتی احکامات کے بعد بھی ’اے ایف پی‘ کے ایک صحافی نے مشرقی جاوا میں ایک تقریب میں لاؤڈ اسپیکر ٹاورز کو اونچی آواز میں موسیقی بجاتے سنا، جب کہ حکام تماشائی بنے کھڑے تھے۔

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ 85 ڈیسِبل یا اس سے زیادہ آواز وقت کے ساتھ سماعت کو نقصان پہنچا سکتی ہے، اور 120 ڈیسِبل سے زیادہ شور فوری طور پر نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

کچھ انڈونیشی باشندوں نے آن لائن ایسے اسکرین شاٹس پوسٹ کیے ہیں، جن میں موبائل ایپس کے ذریعے لاؤڈ اسپیکرز کی آواز 130 ڈیسِبل تک ریکارڈ کی گئی۔

لاؤڈ اسپیکر ٹاور چلانے والے کہتے ہیں کہ وہ صرف عوامی طلب پوری کرتے ہیں، جو مقامی معیشت کے لیے آمدنی پیدا کرتی ہے۔

40 سالہ ڈیوڈ اسٹیون لاؤڈ اسپیکر کرائے پر دینے کا کام کرت ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میرا یقین ہے کہ زیادہ تر لوگ جو ساؤنڈ ہورِگ کو ناپسند کرتے ہیں وہ یہاں کے رہائشی نہیں ہیں، صرف مالانگ میں ہی اس نے دسیوں ہزار لوگوں کو روزگار دیا ہے، یہ کاروبار معیشت میں مدد کر رہا ہے۔

دوسری طرف، جو لوگ ان شور شرابے والے پروگراموں کو برداشت نہیں کر سکتے وہ شکایت کرنے سے ڈرتے ہیں، کیوں کہ بعض لاؤڈ اسپیکر ٹاور مالکان مبینہ طور پر شکایت کرنے والوں کے گھروں کے باہر گھنٹوں تک اونچی آواز میں موسیقی بجاتے ہیں۔

احمد السیات نے کہا کہ میں کبھی بھی گاؤں کے سربراہ سے شکایت نہیں کرتا، ایسا کروں گا تو ہراساں کیا جائے گا۔