فطرت سے لگاؤ کی داستان سناتی فلم ’سندھو جی گونج‘
پاکستانی فلمی صنعت مجموعی طور پر کئی دہائیوں سے زوال پذیر ہے جہاں اردو اور پنجابی زبانوں میں سب سے زیادہ فلمیں بنائی جاتی تھیں، اس کے بعد پشتو زبان میں بھی فلمیں بننے کا رجحان تھا لیکن سندھی زبان میں فلمیں بنانے کے حوالے سے تو گزشتہ تین دہائیوں سے خاموشی چھائی تھی۔
اکا دکا فلمیں ریلیز ہوتی ہیں تو یہ امید جاگ اٹھتی ہے کہ شاید پاکستانی فلمی صنعت دوبارہ سے اپنے قدموں پر کھڑی ہوجائے۔ ایسی ہی اُمید کی کرن لیے سندھی زبان میں بننے والی تازہ ترین فلم ’سندھو جی گونج’ ہے جو 12 ستمبر 2025ء کو پاکستان بھر کے سینما گھروں میں ریلیز ہونے جارہی ہے۔ اس فلم کا تبصرہ اور اس سے جڑی، اس کی تخلیق کی داستان آپ قارئین کے لیے پیشِ خدمت ہے۔
اس فلم کے اسکرپٹ نویس ‘راہول اعجاز’ ہیں جو اس فلم کے ہدایت کار بھی ہیں۔ ان کے خیال میں یہ کہانی برسوں سے ان کے دل میں کہیں پنہاں تھی۔ وہ جب بھی کسی کہانی کو بیان کرنے کی کوشش کرتے تو ان کی کہانی میں دریائے سندھ بہہ نکلتا۔ وہ خود بھی بچپن سے اس دریا کو دیکھتے آئے ہیں۔
ان کے مطابق، سندھ کی کہانیوں اور اس دریا میں گہرا تعلق ہے اور انہوں نے کوشش کی ہے کہ وہ ان میں سے کچھ ان کہی کہانیوں کو بیان کرسکیں۔ اس فلم کے لیے راہول اعجاز نے 5 کہانیوں کو ملا کر اسکرپٹ تیار کیا جس کے تحت فلم کی کہانی خود کو بیان کرتی ہے جس کے قلم کار بھی وہ خود ہیں۔
یہ کہانیاں، سندھ کے کنارے بسنے والے شعرا، ماہی گیروں اور کاشت کاروں کی زندگی اور سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ مذکورہ فلم میں پس منظر میں گائیکی کے انداز میں پڑھا گیا شاعرانہ کلام اور فلم میں شامل کی گئی دریا کے پانی اور ہوا چلنے کی آوازوں کو بھی راوی کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ یہ سب مل کر اس کہانی میں اپنی اپنی کہانی سنا رہے ہیں، حتیٰ کہ اس فلم کی کہانی میں خاموشی بھی ہم سے مخاطب ہے۔
اگر ہم اس خاموشی کو محسوس کرسکیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ احساسات کو جوڑ کر، دریائے سندھ کے کنارے آباد زندگی کی کہانی کو، ان کے درد کو اس فلم میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کہانی برسوں سے منتظر تھی، کوئی انہیں سنائے اور آخر ’سندھ جی گونج’ نے یہ فریضہ انجام دیا ہے۔
فلم ساز اور ہدایت کار راہول اعجاز جنوبی کوریا کے بوسان ایشین فلم اسکول کے زیرِ انتظام ’انٹرنیشنل فلم بوسان اکیڈمی’ سے 2023ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ ان کی اس پہلی سندھی فیچر فلم کا انٹرنیشنل فلم پریمیئر 21 جنوری 2025ء کو ’جے پور فیسٹیول’ میں ہوا جو بھارتی ریاست راجستھان کے شہر جے پور میں منعقد ہوتا ہے۔
بقول راہول اعجاز، ’پاکستان کے سندھ اور بھارت کی ریاست راجستھان کی ثقافت اور زبان مساوی ہونے کی وجہ سے میری خواہش تھی کہ اس فلم کی نمائش وہاں بھی کی جائے اور میرا یہ خواب پورا ہوا‘۔ وہ اپنی دوسری فلم ‘دی لاسٹ اجرک میکر’ کی تیاری کے سلسلے میں دوبارہ جنوبی کوریا کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔
مذکورہ فلم ‘سندھو جی گونج’ پاکستان، بنگلہ دیش اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فلم پروڈکشن ہے جس میں تینوں ممالک سے فلم سازوں اور فلم ساز اداروں نے شرکت کی ہے۔ یہ فلم اب تک پاکستان سمیت دنیا کے مختلف فلمی میلوں میں دکھائی جا چکی ہے اور 12 ستمبر 2025ء کو باضابطہ طور پر پاکستان بھر میں سینما گھروں کی زینت بننے جارہی ہے جس کے لیے اس فلم کی پوری ٹیم بہت پُرجوش ہے۔
راہول اعجاز کی ہدایت کاری نے ہمیں پاکستان میں خال خال بننے والے آرٹ سینما کی یاد دلادی کہ کس طرح فلم کے فریمز کہانیاں سناتے ہیں اور کیسے یہ فریم دیکھ کر ہمیں پینٹگز کا خیال آتا ہے۔ اس فلم میں یہ دونوں احساسات جا بجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ فطرت کے رنگ، ہواؤں کا شور، دریا کے پانی کی آواز، ان سب چیزوں کو بھی ہدایت کار نے فلم کا حصہ بنایا ہے۔
اس فلم کی سینماٹوگرافی کو دیکھتے ہوئے کہیں کہیں جمیل دہلوی کی 1980ء میں ریلیز ہونے والی فلم ‘دی بلڈ آف حسین’ اور اے جے کاردار کی 1958ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’جاگو ہوا سویرا’ کی ایک مدھم سی یاد آئی جس کا اسکرین پلے ہمارے معروف پاکستانی شاعر فیض احمد فیض نے لکھا تھا۔ جس طرح دریا کی محبت اور ماہی گیروں کی زندگی سے ان کے تعلق کو یہ فلم بیان کرتی ہے، اسے دیکھتے ہوئے ستیاجیت رے کی 1955ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’پتھیر پنچالی’ کی موہوم سی یاد آتی ہے۔
پاکستان میں سندھی زبان کے سینما میں یہ فلم پورے 28 برس بعد سینما کی زینت بننے جارہی ہے جوکہ اس فلم کا ایک یادگار باب ہے۔ اس سے قبل 1997ء میں آخری سندھی فلم ‘ہمت’ ریلیز ہوئی تھی جس کے ہدایت کار صمد شیخ تھے جبکہ ملک انوکھا اور ساقی جیسے معروف اداکاروں نے اس فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے جبکہ یہ خالص کمرشل فلم تھی۔
اس فلم کے تین مرکزی فنکار ہیں جن کے نام وجدان شاہ، انصار مہر اور ثمینہ سحر ہیں جنہوں نے مختلف کرداروں کو نبھایا ہے۔ ان کی اداکاری میں مکالمے کم، چہرے کے تاثرات اور جسم کی حرکات و سکنات زیادہ ہیں جن کی مدد سے اداکاری کی گئی ہے۔ کہانی کو بہت اچھے انداز میں انہوں نے پیش کیا ہے، خاص طور پر وجدان شاہ اپنی تھیٹر کی تربیت کو خوب انداز میں بروئے کار لائے ہیں اور انہوں نے بہت جم کر اداکاری کی ہے۔ جیسی کہ آرٹ فلم کے منجھے ہوئے اداکار سے توقع کی جاتی ہے، انہوں نے اس معیار کی اداکاری پیش کی ہے۔
واجدان شاہ ابھی اس میدان فن میں نو وارد ہیں مگر ان سے ہماری بہت سی امیدیں وابستہ ہوگئی ہیں کہ وہ پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کریں گے۔ انصار مہر اور ثمینہ سحر نے بھی اپنے حصے کے کام کو باخوبی انجام دیا ہے۔
میں نے اس فلم کو ‘نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس’ (ناپا) میں ہونے والی اسکریننگ میں دیکھا ہے اور مجھے یہ فلم بہت پسند آئی ہے۔ راہول اعجاز اور ان کی پوری ٹیم اس کے لیے مبارکباد کی مستحق ہے۔ یہ فلم ایک آرٹ فلم ہے جسے دیکھنے کے لیے ایک حساس دل اور فطرت سے لگاؤ ہونا ضروری ہے۔ یہ دریائے سندھ کی بازگشت ہے اور اس دریا کی کہانی بھی جس نے اس خطے کی کئی تہذیبیں دیکھی ہیں۔
اس فلم میں دریا ہمیں کہانی سناتا ہے۔ اگر آپ دریا دل ہیں اور حساس طبیعت رکھتے ہیں تو یہ فلم آپ کے لیے ہے۔ اس میں کمرشل فلموں جیسا کوئی پہلو نہیں، اس لیے 71 منٹس کی اس فلم میں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہوگی، وہ آپ کی توجہ اور ارتکاز ہے۔ فلم کتنی اچھی ہے، اس کا فیصلہ آپ دیکھ کر کیجیے۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
