لائف اسٹائل

سائبر کرائم کا نوٹس نہیں ملا، ماریہ بی کی وضاحت

چند روز قبل خبر سامنے آئی تھی کہ این سی سی آئی اے نے ماریہ بی کو ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے خلاف نامناسب بیانات دینے پر نوٹس جاری کردیا۔

معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے واضح کیا ہے کہ انہیں نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کی جانب سے کوئی نوٹس نہیں ملا، اس حوالے سے پھیلائی جانے والی خبریں غلط ہیں۔

ماریہ بی نے انسٹاگرام پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے واضح کیا کہ انہیں کسی بھی سرکاری ادارے کی جانب سے کوئی باضابطہ نوٹس موصول نہیں ہوا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا مبینہ نوٹس جعلی ہو سکتا ہے۔

ماریہ بی نے کہا کہ یہ تشویشناک ہے کہ ایک سرکاری خط کا مواد ان تک پہنچنے سے قبل عوامی طور پر منظر عام پر لایا گیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ اگر انہیں باضابطہ نوٹس موصول ہوا تو وہ مناسب جواب دیں گی اور حکام کے سامنے پیش ہوں گی اور ٹرانس جینڈرز کے حوالے سے اپنا موقف رکھیں گی۔

انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ ٹرانس جینڈرز کے خلاف رہی ہیں، وہ پاکستانی سماج میں قوم لوط کے رواج کو پنپنے نہیں دیں گی، مذہب اسلام نے ایسے رواج کو حرام قرار دیا ہے۔

فیشن ڈیزائنر کا کہنا تھا کہ شریعت کورٹ بھی ٹرانس جینڈرز ایکٹ کو مذہب اسلام کے خلاف قرار دے چکی ہے لیکن کچھ لوگ انہیں نوٹسز کی دھمکیاں دے کر ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ڈرنے والی نہیں۔

ماریہ بی کی جانب سے وضاحتی بیان جاری کرنے سے چند روز قبل خبر سامنے آئی تھی کہ این سی سی آئی اے نے ماریہ بی کو ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے خلاف نامناسب بیانات دینے پر نوٹس جاری کردیا اور ان کے خلاف تفتیش شروع کر دی۔

اس سے قبل ماریہ بی نے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کی تھی، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ لاہور میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی جانب سے ایک نامناسب اور فحش ڈانس پارٹی منعقد کی گئی، جس میں ہم جنس پرستی کو فروغ دیا گیا۔

ماریہ بی نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں گی اور پاکستان میں خاندانی اقدار اور اسلامی اصولوں کو مجروح کرنے والی سرگرمیوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں گی۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ایمان کے مطابق ہم جنس پرستی اور قوم لوط کے رجحانات کے خلاف بولتی رہیں گی تاکہ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔

ماضی میں بھی ماریہ بی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے خلاف بیانات کی وجہ سے تنازعات کا حصہ رہ چکی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی خاندانی نظام کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں اور ان سرگرمیوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں گی جو معاشرتی اقدار کو نقصان پہنچاتی ہیں۔