جرمن حکومت سے پاکستان میں پھنسے افغانوں کی مدد کا مطالبہ زور پکڑگیا
جرمن حکومت پر درجنوں تنظیموں نے زور دیا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، وہ اُن ہزاروں افغانوں کی مدد کرے جنہیں پاکستان سے جبری طور پر واپس بھیجنے کا خطرہ ہے، حالانکہ برلن نے ماضی میں انہیں پناہ دینے کی پیشکش کی تھی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جرمن بار ایسوسی ایشن کی جانب سے منظم کی گئی اس اپیل پر 50 سے زائد گروپوں اور اداروں نے دستخط کیے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ فوری کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ 2 ہزار سے زائد افغان باشندوں کو طالبان کے زیرانتظام افغانستان واپس بھیجنے سے بچایا جاسکے۔
یہ افغان اُس گروہ کا حصہ ہیں جنہیں جرمنی میں پناہ دینے کی پیشکش کی گئی تھی، مگر اب وہ چانسلر فریڈرک مرز کی سخت امیگریشن پالیسی اور پاکستان میں جاری افغانوں کی ملک بدری کی لہر کے درمیان پھنس گئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز اور چرچ کی فلاحی تنظیم کیریٹاس سمیت دیگر اداروں نے کہا کہ جرمن حکومت کو اُن افراد کے سیکیورٹی چیکس کے عمل کو ’انتہائی تیز‘ کرنا ہوگا جنہیں اس اسکیم کے تحت قبول کیا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ جن افغانوں کی منظوری ہو چکی ہے انہیں ’فوری طور پر منتقل‘ کیا جائے، ان تنظیموں کے مطابق خطرے میں وکلا، جج، انسانی حقوق کے کارکن، صحافی اور خاص طور پر کمزور اقلیتوں کے ارکان شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جرمنی ان افراد کے حوالے سے خصوصی ذمہ داری رکھتا ہے جنہوں نے ہم پر اعتماد کیا اور جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے اپنی وابستگی کے باعث آج افغانستان میں نشانہ بنے ہوئے ہیں‘۔
گزشتہ ہفتے جرمن حکومت نے بتایا تھا کہ پاکستان میں حالیہ کریک ڈاؤن کے دوران 450 افغانوں کو گرفتار کیا گیا ہے جو جرمنی جانے کے منتظر تھے، پاکستانی حکام ان دنوں اُن افغان باشندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں جن کے پاس قانونی رہائشی دستاویزات نہیں ہیں۔
جرمن وزارتِ خارجہ نے پیر کو کہا کہ وہ ان میں سے 200 سے زائد افراد سے رابطے میں ہے جو افغانستان واپس بھیجے جا چکے ہیں۔
یہ استقبالی پروگرام سابق چانسلر اولاف شولز کے دور میں 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد قائم کیا گیا تھا، اس کا مقصد اُن افغانوں کو پناہ دینا تھا جنہوں نے افغانستان میں جرمن افواج کے ساتھ کام کیا تھا یا جو طالبان سے خاص خطرے میں تھے۔
تاہم فریڈرک مرز نے مئی میں عہدہ سنبھالتے وقت امیگریشن پر پابندی کو اپنی اہم ترجیحات میں شامل کیا تھا اور ان کی حکومت نے اس پروگرام کا دوبارہ جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔