دنیا

قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کا الزام، عدالت نے تھائی لینڈ کی وزیراعظم کو برطرف کردیا

تھائی لینڈ کی کم عم ترین وزیراعظم شیناواترا خاندان سے تعلق رکھنے والی یا ان کی حمایت یافتہ چھٹی ایسی وزیراعظم بن گئیں جنہیں فوج یا عدلیہ نے برطرف کیا

تھائی لینڈ کی آئینی عدالت نے وزیر اعظم پیتونگاترن شیناواترا کو قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کے الزام پر عہدے سے برطرف کر دیا، وہ صرف ایک سال ہی اقتدار میں رہ سکیں، عدالتی فیصلہ مشکلات کا شکار شیناواترا سیاسی خاندان کے لیے ایک اور تباہ کن دھچکا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پیتونگاترن شیناواترا، جو تھائی لینڈ کی کم عمر ترین وزیرِاعظم تھیں، اب شیناواترا خاندان سے تعلق رکھنے والی یا ان کی حمایت یافتہ چھٹی ایسی وزیراعظم بن گئی ہیں جنہیں فوج یا عدلیہ نے برطرف کیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پیتونگاترن نے جون میں ہونے والی ایک لیک شدہ ٹیلی فون کال میں اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی، اس ٹیلی فون کال میں وہ کمبوڈیا کے سابق رہنما ہُن سین کے موقف کو تسلیم کرتی نظر آئیں جبکہ اس وقت دونوں ممالک مسلح سرحدی تنازع کے دہانے پر تھے۔

واضح رہے کہ اس کے چند ہفتوں بعد لڑائی چھڑ گئی جو پانچ دن جاری رہی۔

عدالتی فیصلے کے بعد پارلیمان میں نئے وزیرِاعظم کے انتخاب کا راستہ کھل گیا، لیکن یہ عمل طویل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ پیتونگاترن کی حکمران ’ پھیو تھائی پارٹی’ اپنی کمزور اکثریت کے باعث مذاکراتی طاقت کھو رہی ہے اور اپنے نازک اتحاد کو برقرار رکھنے کے چیلنج سے دوچار ہے۔

آئینی عدالت نے چھ- تین کی اکثریت سے یہ فیصلہ دیا، عدالت نے کہا کہ پیتونگاترن نے قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، جس سے عوامی اعتماد مجروح ہوا۔

عدالت نے اپنے بیان میں کہا کہ’ کمبوڈیا کے ساتھ ذاتی تعلقات کی وجہ سے مدعا علیہہ مستقل طور پر کمبوڈیا کے خواہشات کے مطابق عمل کرنے یا ان کی پیروی کرنے کو تیار دکھائی دیں۔’

یہ فیصلہ طاقتور تاجر تھاکسن شیناواترا کی بیٹی کے اقتدار کا قبل از وقت خاتمہ ہے، 39 سالہ پیتونگاترن میدان سیاست میں اس وقت نوآموز تھیں جب انہیں اچانک، اسی عدالت سے ان کے پیش رو سریتھا تھا ویسن کو گزشتہ سال برطرف کیے جانے کے بعد، سامنے لایا گیا۔

غیر یقینی صورتحال

وہ گزشتہ 17 برسوں میں آئینی عدالت کے ذریعے برطرف ہونے والی پانچویں وزیراعظم ہیں، اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ منتخب شدہ پیتونگاترن شیناواترا حکومتوں اور قدامت پسند، شاہی نواز جرنیلوں کے درمیان برسوں سے جاری طاقت کی کشمکش میں عدالت کس قدر مرکزی کردار ادا کررہی ہے۔

اب توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ پیتونگاترن کی جگہ کون لے گا، اور توقع ہے کہ تھاکسن شیناواترا سیاسی جماعتوں اور طاقتور حلقوں کے ساتھ سودے بازی کے عمل میں مرکزی کردار ادا کریں گے تاکہ پھیو تھائی کو اقتدار میں رکھا جا سکے۔

نائب وزیرِاعظم پھومتھم ویچایچائی اور موجودہ کابینہ نگران حکومت کے طور پر کام کرے گی، جب تک نیا وزیرِاعظم منتخب نہیں ہوتا، اور اس کے لیے کوئی وقت کی حد مقرر نہیں ہے۔

وزیرِاعظم کے عہدے کے لیے پانچ افراد اہل ہیں، جن میں سے صرف ایک پھیو تھائی سے تعلق رکھتا ہے، 77 سالہ چاے کاسم نیتیسری، جو سابق اٹارنی جنرل ہیں لیکن کابینہ کا زیادہ تجربہ نہیں رکھتے اور سیاست میں نمایاں کردار ادا نہیں کیا۔

دیگر میں سابق وزیرِاعظم پرایوتھ چان اوچا شامل ہیں، جو سیاست سے ریٹائر ہو چکے ہیں اور جنہوں نے 2014 میں پھیو تھائی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی تھی، اور انوتن چارنویراکول، جو پیتونگتارن کی حکومت میں نائب وزیرِاعظم تھے مگر لیک شدہ کال کے بعد اپنی جماعت کو اتحاد سے الگ کر لیا۔

یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے جب تھائی لینڈ میں سیاسی غیر یقینی بڑھ رہی ہے، عوامی بے چینی موجود ہے، اصلاحات رکی ہوئی ہیں اور معیشت لڑکھڑا رہی ہے، جس کے اس سال صرف 2.3 فیصد بڑھنے کی توقع ہے۔