امریکی عدالت نے ٹرمپ کے عالمی محصولات کو غیر قانونی، فیصلہ اختیار سے تجاوز قرار دیدیا
امریکی اپیل کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عالمی تجارت کو ہلا کر رکھ دینے والے ٹیرف (محصولات) غیر قانونی ہیں، لیکن فی الحال انہیں برقرار رہنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ وہ اس معاملے کو سپریم کورٹ تک لے جا سکیں۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق فیڈرل سرکٹ کی امریکی اپیل کورٹ نے 4 کے مقابلے میں 7 کی اکثریت سے دیے گئے فیصلے میں نچلی عدالت کے اس فیصلے کی توثیق کی کہ ٹرمپ نے ہنگامی معاشی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر ڈیوٹیز عائد کرنے میں اختیار سے تجاوز کیا۔
تاہم ججوں نے محصولات کو اکتوبر کے وسط تک برقرار رکھنے کی اجازت دی، اور ٹرمپ نے فوراً واضح کر دیا کہ وہ اس وقت کا بھرپور استعمال کریں گے۔
امریکی صدر نے فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک بیان میں کہا کہ اپیل کورٹ نے غلط طور پر کہا کہ محصولات کو ختم کر دینا چاہیے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ آخرکار ریاست ہائے متحدہ امریکا جیتے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ امریکی سپریم کورٹ کی مدد سے اس فیصلے کے خلاف لڑیں گے۔
یہ فیصلہ صدر کے لیے ایک دھچکا ہے، جنہوں نے معاشی پالیسی کے ایک وسیع ہتھیار کے طور پر ڈیوٹیز کا استعمال کیا ہے۔
یہ فیصلہ یورپی یونین جیسے بڑے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ ٹرمپ کے معاہدوں پر بھی سوالیہ نشان لگا سکتا ہے، فیصلے نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ اگر قدامت پسند اکثریت والی سپریم کورٹ نے ان کا ساتھ نہ دیا تو امریکا کے اب تک جمع کیے گئے اربوں ڈالر کا کیا ہوگا۔
البتہ، جمعے کے کیس کا تعلق ان مخصوص شعبہ جاتی محصولات سے نہیں ہے، جو ٹرمپ انتظامیہ نے اسٹیل، ایلومینیم، گاڑیوں اور دیگر درآمدات پر بھی عائد کیے ہیں۔
’سفارتی شرمندگی‘
جنوری میں صدارت پر واپسی کے بعد سے، ٹرمپ نے بین الاقوامی ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ ( آئی ای ای پی اے) کا سہارا لے کر تقریباً تمام امریکی تجارتی شراکت داروں پر ’باہمی‘ محصولات عائد کیے ہیں، جن میں بنیادی سطح پر 10 فیصد اور درجنوں معیشتوں کے لیے اس سے بھی زیادہ شرحیں رکھی گئی ہیں۔
انہوں نے اسی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے میکسیکو، کینیڈا اور چین پر بھی الگ ٹیرف عائد کیے، یہ مؤقف اپناتے ہوئے کہ ان ممالک سے امریکا میں مہلک منشیات کی آمد روکنی ہے۔
انٹرنیشنل ٹریڈ کی عدالت نے مئی میں فیصلہ دیا تھا کہ ٹرمپ نے دنیا بھر پر یکساں ٹیرف لگا کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، اور زیادہ تر ڈیوٹیز کو روک دیا تھا، لیکن اپیل کورٹ نے بعد میں اس فیصلے کو مؤخر کر دیا تاکہ کیس پر مزید غور کیا جا سکے۔
جمعہ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ’قانون صدر کو ایک قومی ایمرجنسی کے اعلان کے جواب میں متعدد اقدامات کرنے کا نمایاں اختیار دیتا ہے، لیکن ان اقدامات میں کہیں بھی واضح طور پر ٹیرف، ڈیوٹیز یا ٹیکس عائد کرنے کا اختیار شامل نہیں ہے۔
مزید کہا گیا کہ عدالت اس پر رائے نہیں دے رہی کہ آیا ٹرمپ کے اقدامات پالیسی کے لحاظ سے درست تھے یا یہ کہ آئی ای ای پی اے کسی قسم کے ٹیرف کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔
اس کے بجائے، عدالت نے یہ طے کرنے کی کوشش کی کہ آیا ٹرمپ کے ’باہمی‘ ٹیرف، جو منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف لگائے گئے تھے، قانونی تھے یا نہیں، اور فیصلے میں لکھا کہ ’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ قانونی نہیں ہیں‘۔
اپیل کورٹ کے فیصلہ سنانے سے چند گھنٹے قبل ہی ٹرمپ کابینہ کے اہلکاروں نے اضافی درخواست جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر عالمی ٹیرف کو غیر قانونی قرار دے کر روکا گیا تو اس سے امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچے گا۔
وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک نے لکھا تھا کہ ’ایسا فیصلہ امریکی تذویراتی مفادات کو اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک خطرے میں ڈالے گا، ممکنہ طور پر تجارتی شراکت داروں کی جانب سے جوابی کارروائی اور طے شدہ معاہدوں کے خاتمے کا باعث بنے گا، اس سے ’اہم جاری مذاکرات بھی پٹری سے اتر سکتے ہیں‘۔
دریں اثنا وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے خبردار کیا تھا کہ ٹیرف کی معطلی ’خطرناک سفارتی شرمندگی‘ کا باعث بنے گی۔
ٹرمپ کے نافذ کردہ ان ٹیرف کے خلاف کئی قانونی درخواستیں دائر کی گئی ہیں، اگر یہ ٹیرف غیر قانونی قرار پائے تو کمپنیاں رقوم کی واپسی کی درخواست کر سکیں گی۔