دنیا

ایس سی او اجلاس کا اعلامیہ جاری، جعفرآباد ایکسپریس، خضدار اور پہلگام حملوں کی مذمت

رکن ممالک دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف اپنی پختہ عزم دہراتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گرد، علیحدگی پسند اور انتہا پسند گروہوں کو کرائے کے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ناقابل قبول ہے، اعلامیہ

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او ) اجلاس کا اعلامیہ منظور کرلیا گیا جس میں پاکستان اور بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کی شدید مذمت کی گئی۔

ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولوں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رواں سال 11 مارچ کو 440 مسافروں کو لے کر پشاور جانےو الی جعفر ایکسپریس ٹرین کو بلوچستان لبریشن آرمی کے دہشت گردوں نے ہائی جیک کرکے مسافروں کو یرغمال بنالیا تھا۔ جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے دو روزہ آپریشن کیا تھا جو 12 مارچ کو مکمل ہوا تھا۔

اسی طرح 21 مئی کو خضدار میں کوئٹہ-کراچی ہائی وے پر زیرو پوائنٹ کے قریب ایک اسکول بس پر بم حملہ کیا گیا جس میں کم چھ افراد، جن میں تین طلبہ شامل تھے، شہید اور 40 سے زائد، جن میں بیشتر طلبہ تھے، زخمی ہو گئے تھے۔ یہ بس آرمی پبلک اسکول خضدار کینٹ کے طلبہ کو لے جا رہی تھی۔

22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں مسلح افراد نے فائرنگ کر کے کم از کم 26 افراد کو قتل اور 17 کو زخمی کر دیا تھا۔ مرنے والوں میں ایک نیپال کا شہری جبکہ باقی تمام بھارت کے مختلف علاقوں سے آئے تھے۔ یہ 2000 کے بعداس علاقے میں شہریوں پر ہونے والے سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔

ان تینوں واقعات میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر ملوث ہونے کے الزامات لگائے۔ جون میں ایس سی او وزرائے دفاع کے اجلاس میں مشترکہ اعلامیہ پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا کیونکہ بھارت نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق نئی دہلی نے اس لیے دستخط نہیں کیے تھے کیونکہ اس اعلامیہ میں پہلگام حملے کا ذکر شامل نہیں کیا گیا تھا۔

ایس سی او ایک 10 رکنی یوریشیائی سیکیورٹی اور سیاسی تنظیم ہے جس میں چین، روس، پاکستان، بھارت اور ایران سمیت کئی ممالک شامل ہیں۔

اس وقت ایس سی او کا سربراہی اجلاس چین کے شمالی بندرگاہی شہر تیانجن میں جاری ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے دو روزہ اجلاس کی میزبانی کی جس میں رکن ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ’ ایس سی او پلس’ کے تحت 20 سربراہان حکومت اور بین الاقوامی تنظیموں کے رہنما شریک ہوئے۔ یہ ایس سی او کی تاریخ کا سب سے بڑا اجلاس تھا اور چین کی جانب سے 2001 میں تنظیم کے قیام کے بعد پانچویں بار میزبانی کی گئی۔

اس اجلاس میں تیانجن اعلامیہ منظور کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ’ رکن ممالک 22 اپریل 2025 کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔’

’ رکن ممالک نے 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس اور 21 مئی کو خضدار میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی بھی سخت مذمت کی۔’

ایس سی او رہنماؤں نے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ سے گہری ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں کے مرتکب، منتظمین اور سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ’ رکن ممالک دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف اپنی پختہ عزم دہراتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گرد، علیحدگی پسند اور انتہا پسند گروہوں کو کرائے کے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات کا مقابلہ کرنے میں خودمختار ریاستوں اور ان کے مجاز اداروں کے کلیدی کردار کو تسلیم کرتے ہیں۔’

مزید کہا گیا کہ رکن ممالک پائیدار عالمی امن کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں اور روایتی و نئے سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی اعادہ کیا کہ وہ منشیات، نفسیاتی مادوں اور ان کے اجزاء کی غیر قانونی اسمگلنگ، اسلحہ کی اسمگلنگ اور بین الاقوامی منظم جرائم کے دیگر مظاہر کے خلاف مشترکہ جنگ جاری رکھیں گے۔

رکن ممالک نے سیکیورٹی کے میدان میں ایک ’ یونیورسل سینٹر فار کاؤنٹرنگ چیلنجز اینڈ تھریٹس’ اور ’ ایس سی او اینٹی ڈرگ سینٹر’ کے قیام پر بھی اتفاق کیا۔

مزید برآں، ایک سیکیورٹی اسٹریٹیجک اسٹڈیز سینٹر قائم کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا۔

ایس سی او رکن ممالک نے 2025-2027 کے لیے دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف تعاون کے پروگرام کو فعال طور پر نافذ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’ رکن ممالک ہر قسم اور ہر مظہر میں دہشت گردی کی سخت مذمت کرتے ہیں، اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہرا معیار ناقابل قبول ہے، اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کرے، بشمول دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت، اور متعلقہ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کی عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے مطابق مکمل طور پر نافذ کرے۔ رکن ممالک بین الاقوامی دہشت گردی پر ایک جامع کنونشن کو متفقہ طور پر اپنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔’

مزید برآں، رہنماؤں نے سیکیورٹی، معیشت اور ثقافتی تبادلوں میں تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے 24 دستاویزات کو منظور کیا۔

ارکان نے 2035 تک کی ایس سی او ڈویلپمنٹ اسٹریٹیجی بھی منظور کی، جس میں امن و استحکام، ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے تعاون کو مزید گہرا کرنے کی ترجیحات اور اہم سمتوں کی وضاحت کی گئی ہے۔

امریکی ٹیرف کے باعث عالمی منڈیوں میں پیدا ہونے والے ہلچل کے درمیان، ایس سی او رہنماؤں نے کثیرالجہتی تجارتی نظام کی حمایت کی۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ رہنماؤں نے دوسری جنگ عظیم میں فتح اور اقوام متحدہ کے قیام کی 80ویں سالگرہ بھی منائی۔

’ایس سی او پارٹنر‘

ایس سی او نے ’ شنگھائی فائیو’ سے جنم لیا تھا جس میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان شامل تھے، بعد میں ازبکستان چھٹا رکن بنا۔ آج اس میں 10 رکن ممالک، 2 مبصر اور 14 مکالماتی شراکت دار شامل ہیں۔

یہ تنظیم دنیا کے 24 فیصد زمینی رقبے اور 42 فیصد آبادی پر محیط ہے، جبکہ رکن ممالک عالمی جی ڈی پی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ تشکیل دیتے ہیں۔ پچھلے دو عشروں میں ایس سی او کا تجارتی حجم سو گنا بڑھ چکا ہے۔

2024 میں چین کی ایس سی او ارکان، مبصرین اور شراکت داروں کے ساتھ تجارت 890 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی، جو اس کی مجموعی بیرونی تجارت کا 14.4 فیصد ہے۔

تیانجن اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ’ مبصر’ اور ’مکالماتی شراکت دار‘ کے اسٹیٹس کو یکجا کر کے ’ ایس سی او پارٹنر’ کا نیا درجہ دیا جائے۔ لاؤس کو اس اجلاس میں نیا’ ایس سی او پارٹنر’ تسلیم کیا گیا۔

گزشتہ سربراہی اجلاس جولائی 2024 میں قازقستان میں ہوا تھا، جس میں توانائی، سیکیورٹی، مالیات اور انفارمیشن سکیورٹی پر 25 حکمت عملی دستاویزات منظور کی گئی تھیں۔ چین اب چیئرمین شپ کرغزستان کے حوالے کرے گا اور اگلا اجلاس ’ ایس سی او کے 25 سال: پائیدار امن، ترقی اور خوشحالی کی جانب اکٹھے’ کے عنوان کے تحت ہوگا۔

مشرق وسطیٰ اور افغانستان کی صورتحال

مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر، ایس سی او رہنماؤں نے فلسطین-اسرائیل تنازع کے تسلسل پر گہری تشویش ظاہر کی اور شہری آبادی میں بھاری جانی نقصان اور غزہ کی پٹی میں ’ تباہ کن انسانی صورتحال’ کا سبب بننے والے اقدامات کی شدید مذمت کی۔

انہوں نے فوری، مکمل اور پائیدار جنگ بندی، انسانی امداد تک رسائی اور خطے کے تمام باشندوں کے لیے امن، استحکام اور سلامتی کے حصول کی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’ رکن ممالک سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کا واحد ممکنہ راستہ فلسطینی مسئلے کا جامع اور منصفانہ حل ہے۔’

مزید کہا گیا کہ انہوں نے جون میں ایران پر اسرائیل اور امریکا کی فوجی بمباری کی بھی شدید مذمت کی، جس میں شہری اہداف، بشمول ایٹمی توانائی کے ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا اور شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔ اسے ’ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور ضوابط کی سنگین خلاف ورزی’ قرار دیا گیا، جس نے خطے اور دنیا کے امن و استحکام کو خطرے میں ڈال دیا۔

رکن ممالک نے کہا کہ ایٹمی تنصیبات کی جسمانی حفاظت اور سیکیورٹی کو ہر حال میں یقینی بنایا جانا چاہیے، حتیٰ کہ مسلح تنازعات کے دوران بھی، تاکہ آبادی اور ماحول کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ اس ضمن میں انہوں نے مسائل کے پرامن حل کے لیے سفارتی اقدامات پر اپنی وابستگی کا اعادہ کیا۔

رکن ممالک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 (2015) کی اہمیت دہراتے ہوئے کہا کہ یہ لازمی ہے اور اس پر مکمل عملدرآمد کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی من مانی تشریح کے تمام اقدامات سلامتی کونسل کی اتھارٹی کو کمزور کرتے ہیں۔

ایس سی او ارکان نے متعلقہ فریقین سے کہا کہ تعمیری مکالمے کی بحالی کریں اور ایسے حل تلاش کرنے پر توجہ دیں جو صورتحال کے مزید بگاڑ کو روک سکیں۔

افغانستان کے بارے میں، رکن ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ افغانستان کو ایک آزاد، غیرجانبدار اور پرامن ریاست کے طور پر قائم کیا جانا چاہیے جو دہشت گردی، جنگ اور منشیات سے پاک ہو، اور انہوں نے اس سلسلے میں عالمی برادری کی کوششوں کی حمایت کا اظہار کیا۔