نقطہ نظر

بیجنگ فوجی پریڈ: ’ٹرمپ کے برعکس چینی صدر طویل مدتی کھیل کھیلنا جانتے ہیں‘

امریکی حکومتوں نے خطے میں بھارت کو چین کے متوازی کے طور پر کام کرنے پر آمادہ کیا لیکن اس حکمت عملی کے نتیجے میں چین نے اپنی فوجی طاقت کو مزید مضبوط بنایا۔

وہ لوگ جو ڈرامائی طاقت کے بڑے مظاہروں میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں وہ آج بیجنگ میں ہونے والی فوجی پریڈ کو کچھ ماہ قبل واشنگٹن میں امریکی آرمی کے 250 سال مکمل ہونے (اور ڈونلڈ ٹرمپ کی سالگرہ) پر منعقد ہونے والی پریڈ سے زیادہ متاثر کُن پائیں گے۔

نریندر مودی اس پریڈ میں شریک نہیں کیونکہ چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے 5 سال بعد اور صرف چار ماہ قبل پہلگام حملے سے شروع ہونے والی پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں چینی ٹیکنالوجی کے استعمال کے بعد، بھارتی وزیراعظم کے لیے چینی فوج کو سیلیوٹ کرنا، ملک میں ان کی ساکھ کے لیے بالکل بھی اچھا نہیں ہوتا۔

مگر 31 اگست اور یکم ستمبر کو چین کے شہر تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں نریندر مودی، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ کے ہاتھ پکڑے نظر آئے۔ یہ بھارتی وزیراعظم کی جانب سے 7 سالوں میں پہلا چین کا دورہ تھا۔

چینی صدر سے ملاقات سے پہلے انہوں نے پیوٹن کی لیموزین گاڑی میں 45 منٹ سے زائد وقت گزارا۔ ظاہر ہے ہم یہ نہیں جانتے کہ دونوں کے مابین کیا گفتگو ہوئی۔ مودی چاہ کر بھی پیوٹن کو یوکرین کے خلاف جارحیت سے نہیں روک سکتے تھے، تو یہ امکان انتہائی کم ہے۔ دوسری جانب شی جن پنگ نے مقابلہ بازی کے بجائے مل کر کام کرنے کا مشورہ دیا اور مودی نے اس خیال پر کوئی اختلاف نہیں کیا۔

اسے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے 7 ماہ کے دورانیے میں ایک اور کامیابی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرو نے غیرجانبدار رہنے کی سختی سے حمایت کی تھی اور یہ نقطہ نظر آج بھی بھارت کو متاثر کرتا ہے حالانکہ حال ہی میں بہت سے لوگوں نے ان کے نظریات پر تنقید کی ہے جسے ’نہروین سوشلزم‘ کہا جاتا ہے۔

تین امریکی انتظامیہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھتے ہوئے، جواہر لال نہرو سوویت یونین اور چین کے ساتھ دوستی کے خیال کو بھی اچھا سمجھتے تھے۔ اگرچہ بھارت کے واشنگٹن اور بیجنگ کے ساتھ تعلقات میں کئی برسوں کے دوران اتار چرھاؤ آئے لیکن ماسکو کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی قائم رہے۔

واضح رہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد لگنے والی عالمی پابندیوں تک روس بھارت کے لیے خام تیل کی فراہمی کا اہم ذریعہ نہیں تھا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ گزشتہ سال تک امریکا، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کو برقرار رکھنے کے لیے روسی تیل خریدنے کی بھارت کو ترغیب دیتا تھا جبکہ اسے یورپ یا امریکا کو ریفائنڈ پروڈکٹ فروخت کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا تاکہ وہ دعویٰ کر سکیں کہ وہ یہ تیل روس سے نہیں خرید رہے۔

بھارت میں سب سے بڑی آئل ریفائنری مکیش امبانی کی کمپنی ریلائنس انڈسٹریز کی ملکیت ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ روسی تیل کی درآمدات کو اچانک روکنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سے بڑے کاروبار اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے درمیان سرمایہ دارانہ تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔

گزشتہ امریکی حکومتوں نے خطے میں بھارت کو چین کے متوازی کے طور پر کام کرنے پر آمادہ کیا لیکن اس حکمت عملی کے نتیجے میں چین نے اپنی فوجی طاقت کو مزید وسعت دی اور اسے مضبوط بنایا۔

ٹرمپ غالباً جانتے ہیں کہ چین بھارت سے زیادہ روسی خام تیل خریدتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے معاونین نے یوکرین کی جنگ کو ’مودی کی جنگ‘ کے طور ہر بیان کیا ہے اور بھارت کو روس کے لیے ’لانڈرومیٹ‘ (جس کے ذریعے روس اپنی تیل کی فروخت کو چھپاتا ہے) قرار دیا ہے۔

یہ ایک مضحکہ خیز خیال لگتا ہے کیونکہ جب تک بیجنگ اور نئی دہلی اس میں شامل ہیں تب تک روس اپنے جارحانہ مؤقف میں تبدیلی لے کر نہیں آئے گا۔ اگر بھارت روس سے تیل برآمد کرنا روک دے تو اس سے یوکرین جنگ نہیں رکے گی۔

اگر چین، روس کی حمایت سے دستبردار ہوجائے تو حالات مختلف ہوسکتے ہیں لیکن اس کا امکان بھی نہیں ہے۔ دانستہ یا غیردانستہ طور پر امریکا، بھارت اور چین کی قربت کا سبب بنا ہے۔ اگرچہ پرانا نعرہ ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ اب صرف ایک یاد بن کر رہ گیا ہے لیکن ان دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کے درمیان غیرمتوقع تعلقات کا فائدہ بلاشبہ پورے جنوبی ایشیا کو پہنچے گا۔ ایسا لگتا ہے جیسے ’ہاؤڈی مودی‘ اور نمستے ٹرمپ’ کے دن اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔

ٹرمپ کی دوسری صدارتی میعاد کے آغاز کے وقت ایک عالمی سروے نے ظاہر کیا کہ بھارت گلوبل ساؤتھ کے ان چند ممالک میں سے ایک تھا جس نے ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی کو مثبت انداز میں دیکھا۔ لیکن اب عوامی رائے بدل رہی ہے۔ 52 فیصد بھارتی جنہوں نے جون میں ٹرمپ کی فتح کی حمایت کی تھی، اب شاید بھارتی معیشت کو 50 فیصد امریکی ٹیرف کے دھچکے کے بعد ان کا مؤقف میں تبدیلی ہورہا ہو۔

یہ مضبوط اقتصادی ترقی کی بھارتی امیدوں کے لیے ایک اور رکاوٹ ہے اور یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا چین کے ساتھ ممکنہ شراکت داری واقعی چیزوں کو بہتر بنا سکتی ہے یا نہیں۔ لیکن نریندر مودی تو گزشتہ انتخابات کے بعد مایوس کُن کارکردگی اور فراڈ کے سنگین الزامات کے باعث اندرونِ خانہ بھی جدوجہد کررہے ہیں۔ یہ صورت حال کسی حد تک ٹرمپ سے مماثل محسوس ہوسکتی ہے لیکن بھارت اور امریکا دو انتہائی مختلف قوتیں ہیں۔

مودی اور ٹرمپ دونوں نے بڑی حد تک کمزور مخالفین کا فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن مستقبل میں یہ صورت حال بدل سکتی ہے جس سے نتیجتاً مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ مودی کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات کرنے سے انکار، پاکستان کی جانب واشنگٹن کے جھکاؤ کا باعث بنا۔ کسی بھی فریق نے اس بات کی قابلِ اعتبار وضاحت پیش نہیں کی ہے کہ جنگ کیوں رکی۔ لیکن وجہ کچھ بھی ہو، اس کے اثرات صرف ایک خطے تک محدود نہیں۔

چین کو درست معنوں میں بالادستی حاصل کرنے میں طویل وقت لگ سکتا ہے لیکن ٹرمپ کے برعکس شی جن پنگ طویل مدتی کھیل کھیلنا جانتے ہیں۔ کیا یہ مستقبل میں ایک بہتر عالمی نظام کا باعث بن سکتا ہے؟

یہ ناممکن نہیں کہ تیانجن اجلاس میں غزہ اور دیگر مقامات پر ہونے والی نسل کشی کا بہت کم ذکر کیا گیا جوکہ یہ ایک واضح علامت ہے کہ تجارت کو اکثر انسانی حقوق سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ امریکا کے حریف کے طور پر چین کا عروج ابھی تک ایک گتھی ہے جسے ٹرمپ ہماری توقع سے زیادہ جلدی سُلجھا سکتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: mahir.dawn@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔