دنیا

2026 تک مزید 60 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہوسکتے ہیں، یونیسیف

اس کمی سے دنیا بھر میں اسکول سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد 27 کروڑ 20 لاکھ سے بڑھ کر 27 کروڑ 80 لاکھ ہو جائے گی، جو جرمنی اور اٹلی کے تمام پرائمری اسکولوں کو خالی کرنے کے برابر ہے، پریس ریلیز

اقوام متحدہ کا عالمی فنڈ برائے اطفال (یونیسیف) نے پیش گوئی کی ہے کہ دنیا بھر میں تعلیمی فنڈز میں کٹوتیوں کے باعث 2026 کے آخر تک اندازاً مزید 60 لاکھ بچے دنیا بھر میں اسکول سے باہر ہو سکتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق یونیسیف کی جانب سے بدھ کو جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ تعلیم کے لیے دی جانے والی آفیشل ڈویلپمنٹ اسسٹنس میں 3.2 ارب ڈالر کی کمی کا تخمینہ ہے جو 2023 کے مقابلے میں 24 فیصد کم ہے اور اس کٹوتی کے تقریباً 80 فیصد کی ذمہ داری صرف 3 ڈونر حکومتیں ہیں۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ’ایسی کمی سے دنیا بھر میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد 27 کروڑ 20 لاکھ سے بڑھ کر 27 کروڑ 80 لاکھ ہو جائے گی، جو جرمنی اور اٹلی کے تمام پرائمری اسکولوں کو خالی کرنے کے برابر ہے۔

یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل کا کہنا تھا کہ تعلیم سے ہر ڈالر کی کٹوتی محض ایک بجٹ بنانے کا فیصلہ نہیں بلکہ یہ ایک بچے کا مستقبل ہے جو داؤ پر لگا ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم اکثر زندگی کی ڈور کی حیثیت رکھتی ہے، جو بچوں کو صحت، تحفظ اور غذائیت جیسی بنیادی خدمات سے جوڑتی ہے، یہ غربت سے نکلنے اور بہتر زندگی بنانے کا سب سے مضبوط موقع بھی فراہم کرتی ہے۔

یونیسیف کے تجزیے میں بتایا گیا کہ اس کٹوتی سے مغربی اور وسطی افریقہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، جہاں 19 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہوسکتے ہیں، جب کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں 14 لاکھ مزید بچے اسکول سے باہر ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ دیگر تمام خطوں میں بھی بڑی کمی کا امکان ہے۔

مزید برآں، 28 ممالک ایسے ہیں جہاں پرائمری سے ثانوی سطح تک کی تعلیم کے لیے امداد کا کم از کم ایک چوتھائی حصہ ختم ہو جائے گا، ان میں آئیوری کوسٹ اور مالی سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں، جہاں اندراج میں 4 فیصد کمی کا خدشہ ہے جو بالترتیب 3 لاکھ 40 ہزار اور ایک لاکھ 80 ہزار طلبہ کے برابر ہے۔

تجزیے کے مطابق پرائمری تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوگی، جس کی فنڈنگ ایک تہائی کم ہو جائے گی، جس سے تعلیمی بحران مزید گہرا ہو گا اور متاثرہ بچے اپنی آئندہ زندگی کی آمدن میں اندازاً 164 ارب ڈالر کے نقصان کے خطرے سے دوچار ہوں گے۔

مزید نشاندہی کی گئی کہ انسانی بحران والے حالات میں جہاں تعلیم صرف پڑھنے لکھنے تک محدود نہیں بلکہ جان بچانے والی مدد، استحکام اور صدمے سے گزرے بچوں کے لیے معمول کی زندگی کا احساس فراہم کرتی ہے، وہاں فنڈنگ میں تیزی سے کمی آ سکتی ہے، بعض صورتوں میں یہ قومی تعلیمی بجٹ کے کم از کم 10 فیصد کے برابر ہوگی۔

مثال کے طور پر، یونیسیف کے روہنگیا پناہ گزین پروگرام میں 3 لاکھ 50 ہزار بچے ہمیشہ کے لیے بنیادی تعلیم سے محروم ہو سکتے ہیں اور اگر فوری فنڈنگ نہ ملی تو تعلیمی مراکز بند ہو سکتے ہیں، جس سے بچے استحصال، چائلڈ لیبر اور اسمگلنگ کے خطرے میں پڑ جائیں گے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ضروری خدمات جیسے اسکول میں کھانے کے پروگرام، جو بعض اوقات بچے کے دن کا واحد غذائیت سے بھرپور کھانا ہوتا ہے، ان کی فنڈنگ آدھے سے زیادہ کم ہو سکتی ہے، جب کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے معاونت میں بھی نمایاں کمی کا امکان ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ نظام کی سطح پر وسیع کٹوتیاں حکومتوں کی صلاحیت کو بھی متاثر کریں گی، جیسے شواہد پر مبنی منصوبہ بندی کرنا، اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کی مناسب مدد دینا، اور تعلیمی نتائج کی نگرانی کرنا۔

پریس ریلیز کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ اسکول میں رہنے والے بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہو سکتی ہے، اور دنیا بھر میں کم از کم 29 کروڑ طلبہ کو تعلیمی معیار میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔