افغانستان: زلزلے سے جاں بحق افراد کی تعداد 2200 سے متجاوز، ملبے تلے دبی لاشوں کو نکالنے کا آپریشن جاری
مشرقی افغانستان میں 30 اگست کو آنے والے 6.0 کی شدت کے زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 2 ہزار 200 سے زائد ہو گئی ہے، طالبان حکومت کے مطابق رضاکار اور امدادی کارکن تاحال ملبے تلے دبی لاشوں کو نکالنے میں مصروف ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغانستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے سے مجموعی طور پر 2 ہزار 217 افراد جاں بحق جبکہ تقریبا 4 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت کا تعلق سرحدی صوبہ کنڑ کے پہاڑی علاقوں سے ہے۔
طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ امدادی کام تاحال جاری ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ تباہ ہونے والے گھروں اور ملبے سے لاشوں کو نکالنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔
حمد اللہ فطرت نے اب تک زلزنے میں 2 ہزار 205 افراد کے جاں بحق اور 3 ہزار 640 افراد کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ریسکیو آپریشن اس وقت بھی جاری ہے، جبکہ متاثرہ خاندانوں کے لیے لگائے گئے عارضی کیمپوں میں انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم امید چھوڑ نہیں سکتے، ممکن ہے اب بھی کچھ لوگ ملبے کے نیچے زندہ ہوں۔
کنڑ صوبے کے سب سے زیادہ متاثرہ پہاڑی علاقوں تک محدود رسائی کی وجہ سے امدادی کارروائیاں سست روی کا شکار ہیں، جبکہ آفٹر شاکس سے ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کے باعث خطرناک پہاڑی راستوں میں امدادی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
اگرچہ 3 ستمبر تک زیادہ تر ناقابلِ رسائی علاقوں تک مقامی حکام کو رسائی حاصل ہو گئی ہے، ساتھ ہی زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کی امیدیں بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 3 ستمبر کی رات ایک بیان میں کہا کہ یہ خیال کیا جارہا ہے کہ کئی زندہ بچ جانے والے افراد، اب بھی دور دراز دیہاتوں کے منہدم شدہ مکانوں کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں زندہ تلاش کرنے کی امیدیں تیزی سے دم توڑ رہی ہیں۔
ایک بحران کے اندر دوسرا بحران
ناقص انفرا اسٹرکچر اور 4 دہائیوں کی جنگ سے تباہ حالی کے باعث افغان حکام کو ہنگامی امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے، ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا کہ مقامی طبی سہولتیں ’شدید دباؤ‘ میں ہیں، جہاں زخمیوں کے علاج کے لیے ضروری طبی اشیا، ادویات اور عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
ادارے نے ہنگامی طبی امداد، موبائل ہیلتھ سروسز کی توسیع اور امدادی سامان کی تقسیم کے لیے 40 لاکھ ڈالر کی اپیل کی۔
افغانستان میں ڈبلیو ایچ او کی ایمرجنسی ٹیم کے سربراہ، جمشید تنولی نے کہا کہ ہر ایک گھنٹہ قیمتی ہے، ہسپتال کوشش کر رہے ہیں، جاں بحق افراد کے خاندان سوگ منا رہے ہیں اور زندہ بچ جانے والے سب کچھ کھو بیٹھے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیموں اور اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یہ زلزلہ ایک بحران کے اندر دوسرا بحران پیدا کر رہا ہے، کیونکہ افغانستان پہلے ہی یکے بعد دیگرے ہیومن ڈیزاسٹرز کا شکار رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین، فلیپو گراندی نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ زلزلے نے 5 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا۔
دہائیوں کے تنازعات کے بعد افغانستان غربت، شدید خشک سالی اور ان لاکھوں افغان مہاجرین کے بوجھ سے بھی دوچار ہے جنہیں طالبان کے 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان اور ایران نے واپس بھیجنا شروع کیا ہے۔
اسی دوران جب افغانستان اس سانحے سے سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا، پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو اپنے ملک واپس بھیجنے کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔
منگل (2 ستمبر) کو صرف زلزلہ متاثرہ صوبے ننگرہار کے تورخم بارڈر سے 6 ہزار 300 سے زائد افراد کو واپس بھیجا گیا۔