لائف اسٹائل

’میں منٹو نہیں ہوں‘ میں خاتون کی جسامت کے ڈائیلاگ پر تنازع، خلیل الرحمٰن قمر کا ردعمل آگیا

ڈرامے کی ایک قسط میں سجل علی کے مکالمے پر سوشل میڈیا صارفین نے باڈی شیمنگ کا الزام عائد کیا، جس پر مصنف نے وضاحت پیش کردی۔

سوشل میڈیا پر ڈراما ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کی ایک قسط میں خاتون کی جسامت سے متعلق جملے پر تنازع کھڑا ہوگیا، جس پر مصنف خلیل الرحمٰن قمر نے وضاحت پیش کردی۔

خلیل الرحمٰن قمر نے حال ہی میں ’شیخ دا پوڈکاسٹ‘ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے ڈرامے ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کی چوتھی قسط میں بولے گئے ایک ڈائیلاگ پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے گفتگو کی۔

یاد رہے کہ ڈرامے کی چوتھی قسط کے ایک سین میں دکھایا گیا تھا کہ سجل علی کلاس میں دیر سے آتی ہیں اور ان کا ہوم ورک بھی مکمل نہیں ہوتا، ہمایوں سعید ان سے وجہ پوچھتے ہیں تو سجل جواب دیتی ہیں کہ گھر میں ان کی شادی کی بات چل رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ پڑھائی پر توجہ نہیں دے پاتیں۔

اس موقع پر سجل علی ہمایوں سعید سے بھی شادی سے متعلق سوال کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی پھوپھو سے شرط لگائی ہے کہ آپ کی شادی ہوچکی ہوگی، دو تین بچے بھی ہوں گے اور آپ کی بیوی ’موٹی‘ بھی بن چکی ہوگی۔

سجل علی کی جانب سے یہ جملہ بولنے پر سوشل میڈیا صارفین نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ خواتین کے لیے ’موٹی‘ جیسا لفظ استعمال کرنا باڈی شیمنگ ہے۔

صارفین نے یہ بھی نشاندہی کی کہ اس کی ذمہ داری صرف ڈراما نگار پر ہی نہیں بلکہ سجل علی پر بھی عائد ہوتی ہے، کیونکہ وہ ایک بڑا نام اور سینئر اداکارہ ہیں، انہیں اس لفظ کے استعمال پر اعتراض کرنا چاہیے تھا۔

اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے خلیل الرحمٰن قمر کا کہنا تھا کہ ڈرامے میں منٹو یعنی ہمایوں سعید کی کوئی بیوی ہے ہی نہیں، یہ کردار دراصل ایک تخیل تھا۔

ان کے مطابق یہ باڈی شیمنگ نہیں بلکہ ’نیشن شیمنگ‘ ہے، کیونکہ لوگ تنقید کرکے اپنے ہی ملک کے لوگوں کی توہین کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ ڈرامے ایسے لوگوں کے لیے لکھتے ہیں جو انہیں بخوبی سمجھ لیتے ہیں، لیکن جنہیں ان کے ڈرامے سمجھ نہیں آتے وہ اردو اور انگریزی کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں، جس دن ان لوگوں کو اردو آجائے گی، ان کے ڈرامے بھی سمجھ آ جائیں گے۔

خلیل الرحمٰن قمر کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہاں اپنے لوگوں کو مشکل سے تسلیم کیا جاتا ہے۔