دنیا

جنوبی کوریائی خواتین کا امریکی فوج کےخلاف جسم فروشی پر مجبور کرنے کا مقدمہ

1950 سے 1980 تک ہزاروں خواتین ریاستی سرپرستی میں چلنے والے کوٹھوں پر کام کرتی رہیں، جہاں وہ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا سے بچانے کیلئے تعینات فوجیوں کو خدمات فراہم کرتی تھیں۔

وکلا کا کہنا ہے کہ امریکی فوجیوں کے لیے جسم فروشی پر مجبور کی گئی 100 سے زائد جنوبی کوریائی خواتین نے امریکا پر بدسلوکی کا الزام لگاتے ہوئے ایک تاریخی مقدمہ دائر کر دیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مورخین اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ 1950 کی دہائی سے 1980 کی دہائی تک دسیوں ہزار جنوبی کوریائی خواتین ریاست کی سرپرستی میں چلنے والے کوٹھوں پر کام کرتی رہیں، جہاں وہ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا سے بچانے کے لیے تعینات امریکی فوجیوں کو خدمات فراہم کرتی تھیں۔

2022 میں جنوبی کوریا کی اعلیٰ عدالت نے قرار دیا تھا کہ حکومت نے غیر قانونی طور پر ایسے کوٹھے ’قائم اور منظم کرکے چلائے‘ جو امریکی فوج کے لیے تھے اور تقریباً 120 متاثرہ خواتین کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

گزشتہ ہفتے 117 متاثرہ خواتین نے ایک نیا مقدمہ دائر کیا ہے، پہلی بار باضابطہ طور پر امریکی فوج پر الزام لگاتے ہوئے اور ان سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے مقدمے میں ہر متاثرہ خاتون کے لیے ایک کروڑ وون (7 ہزار 200 ڈالر) معاوضہ طلب کیا گیا ہے۔

جاپانی فوجیوں کے زیرِ استعمال مشہور ’کمفرٹ ویمن‘ کے برعکس، امریکی فوجیوں کے لیے کام کرنے والی ان خواتین کو نسبتاً کم توجہ ملی ہے کیونکہ واشنگٹن، جنوبی کوریا کا اہم اور دیرینہ اتحادی ہے۔

مورخین کے مطابق امریکی فوجی اڈوں کے قصبوں میں فوجی کوٹھوں سے جڑی معیشت (بشمول ریسٹورنٹ، نائی کی دکانیں اور بارز جو امریکی فوجیوں کے لیے مخصوص تھے) 1960 اور 70 کی دہائی میں جنوبی کوریا کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 25 فیصد تھی۔

60 سالہ ایک مدعی خاتون کا کہنا ہے کہ میں اب بھی سر جھکا کر مشروب ڈالنے پر، مسکرانے سے انکار پر امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مار کھانے کو بھول نہیں سکتی۔

انہوں نے کہا کہ وہ صرف 17 سال کی تھیں جب انہیں دھوکے سے اس کام میں لگایا گیا، انہیں لگا تھا کہ وہ بار میں نوکری کرنے جا رہی ہیں، لیکن انہیں جنسی کام پر مجبور کیا گیا اور بتایا گیا کہ وہ ’قرض‘ کی وجہ سے جا نہیں سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں چل بھی نہیں سکتی تھی، ہر رات ہمیں امریکی فوجیوں کے پاس گھسیٹا جاتا اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا، ہر ہفتے ہمیں جنسی بیماریوں کے ٹیسٹ پر مجبور کیا جاتا تھا، اگر معمولی سا مسئلہ نکل آتا تو ہمیں ایک چھوٹے کمرے میں قید کر کے موٹی سوئی کے ذریعے سخت پینسلن کا ٹیکہ لگایا جاتا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ انجیکشن اتنے کڑے تھے کہ میری ٹانگیں جواب دے جاتیں اور میں چل بھی نہیں پاتی تھی۔

خواتین کے حقوق کی کارکنوں نے متاثرہ خواتین کی حمایت میں مشترکہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج نے جنوبی کوریا کے آئین کو نظرانداز کیا اور ان خواتین کو ذاتی آزادی سے محروم کر کے ان کی زندگیاں تباہ کر دیں۔

وکلا نے بتایا کہ مقدمے میں جنوبی کوریا کی حکومت کو بھی مدعا علیہ نامزد کیا گیا ہے، کیونکہ موجودہ قوانین کے تحت سیول کو امریکی فوجیوں کے ڈیوٹی پر کیے گئے غیر قانونی اقدامات کے متاثرین کو ہرجانہ ادا کرنا ہوتا ہے اور بعد میں واشنگٹن سے واپسی کا مطالبہ کرنا ہوتا ہے۔

وکیل ہا جوہی نے کہا کہ یہ مقدمہ جنوبی کوریا کی حکومت اور امریکی فوجی حکام دونوں کو غیر قانونی کارروائیوں کا مشترکہ طور پر ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش ہے۔

امریکا کے اب بھی جنوبی کوریا میں تقریباً 28 ہزار 500 فوجی تعینات ہیں، تاکہ اسے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا کے خلاف تحفظ فراہم کیا جا سکے، امریکی فورسز کوریا (یو ایس ایف کے) نے کہا کہ وہ اس معاملے سے متعلق رپورٹس سے آگاہ ہیں اور جاری قانونی کارروائیوں پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

امریکی فورسز کوریا نے کہا کہ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم کسی ایسے رویے کی حمایت نہیں کرتے جو جنوبی کوریا کے قوانین، اصولوں یا ہدایات کی خلاف ورزی کرے اور ہم اچھے نظم و ضبط کے اعلیٰ ترین معیار پر کاربند رہنے کے لیے پرعزم ہیں۔