دنیا

ایتھوپیا میں افریقا کے سب سے بڑے ڈیم کا افتتاح، مصر کا اقوام متحدہ میں احتجاج

4 ارب ڈالر لاگت سے تعمیر ہونے والا یہ میگا اسٹرکچر 74 ارب مکعب میٹر پانی ذخیرہ کرنے اور 5 ہزار 150 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایتھوپیا نے منگل کو براعظم افریقہ کے سب سے بڑے پن بجلی منصوبے کا افتتاح کردیا جسے وزیرِاعظم ابی احمد نے ’تمام سیاہ فام عوام کے لیے ایک عظیم کارنامہ‘ قرار دیا، تاہم اس اقدام پر مصر نے اقوام متحدہ میں احتجاج درج کرا دیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گرینڈ ایتھوپین رینیسنس ڈیم (جی ای آر ڈی)، جو دریائے نیل کی ایک شاخ پر تعمیر کیا گیا ہے، ملک کی تاریخ کا ایک قومی منصوبہ ہے اور اندرونی تنازعات سے دوچار اس ریاست میں ایک نادر متحد علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ ڈیم 170 میٹر (550 فٹ) بلند اور تقریباً 2 کلومیٹر لمبا ہے، جو دریائے نیل کے نیلے حصے پر سوڈان کی سرحد کے قریب واقع ہے، اس کی تعمیر 2011 میں شروع ہوئی تھی۔

4 ارب ڈالر لاگت سے تعمیر ہونے والا یہ میگا اسٹرکچر 74 ارب مکعب میٹر پانی ذخیرہ کرنے اور 5 ہزار 150 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو ایتھوپیا کی موجودہ پیداوار سے دگنی ہے، یہ بجلی کی گنجائش کے لحاظ سے افریقہ کا سب سے بڑا ڈیم ہے، اگرچہ کہ دنیا کے 10 سب سے بڑے ڈیموں میں شامل نہیں۔

افتتاحی تقریب میں کینیا کے صدر ولیم روٹو اور صومالیہ کے صدر حسن شیخ محمود سمیت خطے کے رہنماؤں نے شرکت کی، ابی احمد نے کہا کہ’جی ای آر ڈی کو صرف ایتھوپیا نہیں بلکہ تمام سیاہ فام عوام کے لیے ایک عظیم کارنامہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا، میں تمام سیاہ فام لوگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس ڈیم کو دیکھیں، یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم سیاہ فام جو کچھ ارادہ کریں وہ حاصل کر سکتے ہیں‘۔

مصر، جو اپنی 97 فیصد پانی کی ضروریات کے لیے دریائے نیل پر انحصار کرتا ہے، عرصے سے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتا آیا ہے، صدر عبدالفتاح السیسی نے اسے اپنی آبی سلامتی کے لیے ’وجودی خطرہ‘ قرار دیا ہے۔

منگل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجے گئے خط میں مصر نے اس افتتاح کو ’یکطرفہ اقدام‘ اور ’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ کہا اور اپنے عوام کے ’وجودی مفادات‘ کے تحفظ کا عزم ظاہر کیا۔

ابی احمد نے تقریب میں کہا کہ ’یہ ڈیم زیریں ممالک کے لیے خطرہ نہیں ہے، یہ ان کی ترقی پر اثرانداز نہیں ہوگا بلکہ سیاہ فام عوام کے لیے ایک روشن مثال ہے‘۔

مصر نے ایتھوپیا پر الزام عائد کیا ہےکہ کہ وہ اس منصوبے کو ’قبولیت اور قانونی حیثیت کا جھوٹا تاثر‘ دینے کی کوشش کر رہا ہے، قاہرہ نے کہا کہ وہ اپنے عوام کے ناگزیر مفادات کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کے تحت تمام اقدامات کرنے کا حق رکھتا ہے۔

دریائے نیل کے پانی کا 85 فیصد تک حصہ نیلے نیل سے آتا ہے، جو سفید نیل سے مل کر سوڈان اور پھر مصر سے گزرتا ہے، منصوبے کی اطالوی کمپنی ویبِلڈ کے سی ای او پیٹرو سالینی نے کہا کہ ’یہ پن بجلی منصوبہ پانی کو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، یہ آبپاشی اسکیم نہیں ہے جو پانی کو استعمال کرے، پانی کے بہاؤ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی‘۔

گزشتہ دہائی میں امریکا، عالمی بینک، روس، متحدہ عرب امارات اور افریقی یونین کی ثالثی کی کوششیں بار بار ناکام ہوئیں، مصر کے سابق مذاکراتی رکن محمد محی الدین کے مطابق ’مصر کے لیے یہ معاملہ صرف پانی نہیں بلکہ قومی سلامتی کا ہے، کیونکہ پانی کی فراہمی میں بڑی کمی ملک کے اندرونی استحکام کے لیے خطرہ ہے‘۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈیم ایتھوپیا کی صنعتی پیداوار بڑھانے، الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے اور بجلی کی ترسیل کے ذریعے خطے کو توانائی فراہم کرنے میں مدد دے گا۔

عالمی بینک کے مطابق ایتھوپیا کی 13 کروڑ آبادی میں سے 45 فیصد کے پاس بجلی تک رسائی نہیں ہے، جبکہ دارالحکومت عدیس ابابا میں بار بار بجلی کی بندش سے کاروبار اور گھریلو زندگی متاثر ہوتی ہے۔

پیٹرو سالینی نے کہا کہ ’یہ اب خواب نہیں رہا بلکہ حقیقت ہے‘، انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کو افرادی قوت، مالی وسائل اور 2020 سے 2022 کی خانہ جنگی جیسے بڑے چیلنجز کے باوجود مکمل کیا گیا، انہوں نے کہاکہ ’جب میں پہلی بار آیا تو یہ ملک رات کو اندھیرا ہوتا تھا، اور اب یہ اپنے ہمسایہ ممالک کو توانائی فروخت کر رہا ہے‘۔

یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے الیکس وائنز کے مطابق ’ایتھوپیا ایک مشکل خطے میں واقع ہے اور اندرونی سیاسی کمزوری بڑھ رہی ہے، حکومت اس ڈیم اور ہمسایوں کے ساتھ تناؤ کو ایک متحد حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے‘۔