دنیا

بدنام زمانہ سزا یافتہ مجرم جیفری ایپسٹین سے تعلقات پر امریکا میں تعینات برطانوی سفیر برطرف

پیٹر مینڈلسن کی برطرفی بڑی تعداد میں ای میلز اور خطوط کے سامنے آنے پر ہوئی جن سے ان کا جنسی جرائم میں سزا یافتہ امریکی مجرم آنجہانی جیفری ایپسٹین سے گہرا تعلق ثابت ہوتا تھا

برطانیہ کے وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے امریکی سزا یافتہ مجرم جیفری ایپسٹین سے تعلقات کی پاداش میں امریکا میں تعینات برطانوی سفیر کو برطرف کردیا۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں تعینات برطانوی سفیر پیٹر مینڈلسن کی برطرفی بڑی تعداد میں ای میلز اور خطوط کے سامنے آنے پر ہوئی جن سے ان ( پیٹر مینڈلسن ) کا جنسی جرائم میں سزا یافتہ امریکی مجرم آنجہانی جیفری ایپسٹین سے گہرا تعلق ثابت ہوتا تھا۔

تین دہائیوں پر محیط اپنے کیریئر کے دوران پیٹر مینڈلسن پسِ پردہ چالوں کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔

حالیہ عرصے میں لگنے والے کئی دھچکوں کے بعد رائے عامہ کے جائزوں میں گرتی مقبولیت کا سامنا کرنے والے کیئر اسٹارمر نے بدھ کو اپنے سفیر کی بھرپور حمایت کی تھی، کیونکہ اگلے ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سرکاری دورہ برطانیہ متوقع ہے، اور ٹرمپ کے ساتھ بھی پیٹر مینڈلسن کے قریبی تعلقات ہیں۔

ٹرمپ کو بھی ایپسٹین سے تعلقات کے حوالے سے سوالات کا سامنا ہے، جبکہ وائٹ ہاؤس نے ایک مبینہ سالگرہ کے خط کو مسترد کر دیا ہے جو مبینہ طور پر ٹرمپ کی طرف سے ایپسٹین کو لکھا گیا تھا۔

پیٹر مینڈلسن نے ایپسٹین کو ’میرا بہترین دوست‘ کہا

لیبر پارٹی کے اس دور میں جب ٹونی بلیئر وزیرِاعظم تھے، پارٹی کی کامیابی میں مرکزی کردار ادا کرنے والے مینڈلسن کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب امریکی قانون سازوں نے ان کی ایسی دستاویزات جاری کیں جن میں ایک خط شامل تھا جس میں ایپسٹین کو ’ میرا بہترین دوست’ کہا گیا تھا۔

میڈیا میں شائع ای میلز میں یہ بھی سامنے آیا کہ 2008 میں جب ایپسٹین کو نابالغ لڑکیوں سے جنسی تعلق کی درخواست کے جرم میں 18 ماہ کی سزا سنائی جانے والی تھی تو پیٹر مینڈلسن نے انہیں قبل از وقت رہائی حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

برطانوی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ’ ای میلز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیٹر مینڈلسن کے جیفری ایپسٹین کے ساتھ تعلقات کی گہرائی اور وسعت ان معلومات سے کہیں زیادہ ہے جو ان کی تعیناتی کے وقت معلوم تھیں۔’

وزارت خارجہ نے کہا کہ مینڈلسن کی جانب سے ایپسٹین کی پہلی سزا کو غلط اور چیلنج کرنے کے قابل قرار دینا ’ نئی معلومات’ ہیں، اور کیئر اسٹارمر نے ان کی برطرفی کی درخواست کی ہے۔

بدھ کے روز پیٹر مینڈلسن نے کہا تھا کہ انہیں ایپسٹین سے ملاقات پر گہرا افسوس ہے اور یہ کہ انہوں نے ’ یہ تعلق اتنے طویل عرصے تک جاری رکھا جو نہیں رکھنا چاہیے تھا’ — یہ بیان اس وقت بظاہر وزیرِاعظم کو مطمئن کرنے کے لیے کافی معلوم ہوا تھا۔

کیئر اسٹارمر نے مینڈلسن کی تعریف کی تھی، جو تقریباً نصف صدی میں پہلی بار اس عہدے پر سیاسی طور پر تعینات کیے گئے تھے، کہ انہوں نے امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم ٹونی بلیئر کے دور میں دو مرتبہ کابینہ سے نکالے جانے کے بعد پیٹر مینڈلسن کے لیے تنازع نیا نہیں تھا۔

گزشتہ ہفتے برطانوی وزیراعظم نے کیئر اسٹارمر کی نائب انجلا رینر کے ٹیکس امور پر مستعفی ہونے کے بعد اسٹارمر کو کابینہ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کرنا پڑا تھا جس نے ان کی لیبر حکومت کے نئے آغاز کو بھی گہنا دیا تھا۔

چونکہ معاشی نمو سست ہے اور ممکنہ ٹیکس بڑھنے کا امکان ہے، نائجل فراج کی پاپولسٹ ریفارم یوکے پارٹی رائے عامہ کے جائزوں میں لیبر سے آگے نکل گئی ہے اور اسٹارمر کی جماعت کے اندر بے چینی بڑھ رہی ہے۔