دنیا

اقوام متحدہ کی پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں توسیع کی اپیل

پاکستان انسانی ہمدردی کا رویہ برقرار رکھے، افغانستان واپسی پر خطرے سے دوچار بین الاقوامی تحفظ کے ضرورت مندوں کے قیام کی مدت بڑھائی جائے، سربراہ یو این ایچ سی آر افغانستان

اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے افغانستان میں سربراہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کے حوالے سے اپنے دیرینہ انسانی ہمدردی کے رویے کو برقرار رکھے اور اُن افراد کے قیامِ قانونی مدت میں توسیع کرے جنہیں اب بھی بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت ہے، بالخصوص اُن گروہوں کو جو جبراً واپس بھیجے جانے کی صورت میں شدید خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنیوا سے جاری کردہ بیان میں یو این ایچ سی آر کے افغانستان میں نمائندہ عرفات جمال نے کہا کہ ادارہ پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ کمزور افراد کی شناخت کے لیے عملی طریقۂ کار وضع کیا جا سکے اور افغان باشندوں کے لیے باقاعدہ نقل مکانی کے راستے وسیع کیے جا سکیں۔

اُنہوں نے علاقائی ممالک پر بھی زور دیا کہ واپسی ہمیشہ رضاکارانہ، محفوظ، باوقار اور پائیدار ہونی چاہیے، اور کسی کو بھی خطرے یا پہلے ہی دباؤ کا شکار ملک میں واپس جانے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔

عرفات جمال نے کہا کہ اضافی فنڈنگ کے بغیر ہم ان افغان خاندانوں کے لیے زندگی بچانے والی امداد کو جاری نہیں رکھ سکیں گے، جو ان بیک وقت بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں، ہم نے حالیہ حالات کے تناظر میں اپنے خطے کے لیے اپیل کو اپ ڈیٹ کیا ہے اور 25 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی امداد کی درخواست کی ہے۔

پاکستان کی جانب سے ’غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے‘ پر دوبارہ عملدرآمد کے آغاز کے بعد سے اب تک اپریل سے 5 لاکھ 54 ہزار سے زائد افغان واپس جا چکے ہیں، جن میں صرف اگست میں ایک لاکھ 43 ہزار افراد واپس گئے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں یہ رفتار مزید تیز ہو گئی ہے، صرف ستمبر کے پہلے ہفتے میں تقریباً ایک لاکھ افراد پاکستان سے واپس افغانستان گئے، جس سے گنجائش اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔

یو این ایچ سی آر اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر واپس جانے والوں کو فوری امداد (نقد رقوم، تحفظ اور دیگر بنیادی خدمات) سرحدی مقامات اور واپسی کے علاقوں میں فراہم کر رہا ہے تاکہ خاندان اپنی زندگیاں دوبارہ شروع کر سکیں۔

تاہم حالیہ دنوں میں ادارے کو افغانستان بھر میں اپنے نقد اور امدادی مراکز کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا ہے، کیونکہ امر واقعہ حکام نے خاتون عملے کو اقوامِ متحدہ کے دفاتر میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ مسئلہ پورے اقوامِ متحدہ کو متاثر کر رہا ہے، بشمول یو این ایچ سی آر، اور کوئی بھی ادارہ جاتی سربراہ ایسی ہی بات کرے گا، خواتین کے بغیر ہم خواتین کی خدمت نہیں کر سکتے، ہم ان پابندیوں کے فوری خاتمے اور ہنگامی حل کے لیے اپنی اپیل دہراتے ہیں۔

عرفات جمال نے کہا کہ ادارے نے 9 ستمبر کو 8 مراکز بند کیے جو واپس آنے والوں کو نقد اور دیگر امداد فراہم کر رہے تھے، کیونکہ خواتین کارکنوں پر پابندی تھی۔

اُنہوں نے جنیوا میں ایک پریس بریفنگ کے دوران کابل سے ویڈیو لنک پر کہا کہ یہ ایک عملی فیصلہ تھا، یہ کسی کو سزا دینے یا کوئی پیغام دینے کے لیے نہیں کیا گیا، لیکن یہ صرف اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم مخصوص حالات میں خواتین کے بغیر کام نہیں کر سکتے، یہ ایک بہت بڑا قدم ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے بے پناہ تکلیف پیدا کر رہا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ یہ مراکز عام طور پر روزانہ تقریباً 7 ہزار افراد کی مدد کرتے تھے، ان مراکز میں کام میں ذاتی انٹرویوز اور بائیومیٹرکس شامل ہیں، جو اُن کے مطابق افغان خواتین کے ساتھ مرد انجام نہیں دے سکتے۔

خواتین پر پابندیاں

دریں اثنا، افغانستان میں اقوامِ متحدہ نے طالبان حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قومی خواتین عملے کو دفاتر میں داخلے سے روکنے کی پابندیاں ختم کریں۔

اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے معاون مشن برائے افغانستان (یوناما) نے ایک بیان میں خبردار کیا کہ یہ اقدامات حالیہ مہلک زلزلے سے متاثرہ لاکھوں افراد کے لیے زندگی بچانے والی انسانی امداد اور دیگر بنیادی خدمات کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

یو این ایچ سی آر نے متنبہ کیا کہ ’بحران کے اندر بحران‘ پیدا ہو رہا ہے، کیونکہ پاکستان سے جبری واپسی انہی علاقوں میں تباہ کن زلزلوں کے ساتھ ہو رہی ہے، جہاں واپس آنے والے بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔

سال کے آغاز سے اب تک تقریباً 26 لاکھ افغان ہمسایہ ممالک سے واپس آچکے ہیں، جن میں سے کئی اپنی مرضی کے خلاف واپس آئے ہیں، بعض دہائیوں سے افغانستان نہیں گئے تھے جب کہ کچھ کو پہلی بار ملک میں لایا گیا ہے۔

عرفات جمال نے کہا کہ عالمی ادارہ ان حکومتوں، کمپنیوں اور افراد کا شکر گزار ہے جنہوں نے پہلے ہی افغانستان اور خطے میں یو این ایچ سی آر کے کام کی حمایت کی ہے، لیکن ہمارے وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔

اسی دوران، زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں یو این ایچ سی آر نے اُن خاندانوں سے ملاقات کی جنہوں نے ابھی حال ہی میں پاکستان سے واپسی کی تھی اور دوبارہ اپنے گھر کھو بیٹھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ہزاروں خیمے اور دیگر امدادی سامان تقسیم کر رہے ہیں، جن میں انتہائی دور دراز مقامات بھی شامل ہیں، ساتھ ہی ان صوبوں میں واپس آنے والوں کے لیے پہلے سے جاری تحفظ کے جائزوں اور پروگراموں میں بھی اضافہ کر رہے ہیں۔