اولمپکس میں تاریخ رقم کرنے کے ایک سال بعد، ارشد ندیم عالمی اعزاز جیتنے کیلئے تیار
ارشد ندیم کا پیرس اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتنے کا فارمولا سادہ تھا، انہوں نے اپنے لیے ایک ہدف مقرر کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے انہوں نے یہ ہدف حاصل کرلیا۔
یہ جواب 28 سالہ پاکستانی کے لیے بالکل عام تھا، جو ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کے ایتھلیٹس ہوٹل کی لابی میں صوفے پر آرام سے بیٹھے بات کر رہے تھے، انہوں نے ایک چپل اتار کر ایک پاؤں ران کے نیچے دبایا اور اپنی کامیابی پر گفتگو شروع کی۔
خدا پر ایمان اور ایک روحانی کیفیت ہی شاید ارشد ندیم کے طویل فاصلے کے تھروز کی وضاحت کر سکتی ہے، جو لاہور میں خستہ حال اور پرانے میدانوں میں شدید گرمی میں تربیت سے گزرے۔
ارشد کا پہلا اولمپک ٹائٹل، 92.97 میٹر کے ریکارڈ کے ساتھ، محض تاریخ بدلنے کے مترادف نہیں تھا بلکہ اس نے بایو مکینیکل ٹیکنالوجی اور ورلڈ کلاس سہولیات کی برتری کو توڑ دیا، یہ وہی سہولیات ہیں جو عموماً اولمپک چیمپئنز بناتی ہیں۔
ارشد ندیم کے لیے سخت محنت، استقامت اور خدا داد صلاحیت ہی جیولن تھرو کے اعلیٰ ترین درجے کی فتح کے لیے کافی تھی، جس کی طرف وہ کئی سالوں سے بڑھ رہے تھے۔
یہ سب سنگِ میل جو انہوں نے پاکستان کے کرکٹ کے دیوانے عوام کے نام کیے، پچھلے چند سالوں میں سب اگست میں ہوا، میاں چنوں کے رہائشی اس کھلاڑی نے ہر بار پاکستان کے لیے تاریخ رقم کی؛ ٹوکیو 2021 میں ایتھلیٹکس کے کسی اولمپک فائنل میں پہنچنے والے پہلے پاکستانی؛ برمنگھم 2022 میں کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ جیتنے والے پہلے؛ 2023 میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں سلور میڈل جیتنے والے پہلے کھلائی؛ اولمپکس میں پاکستان کے لیے انفرادی گولڈ جیتنے والے پہلے اور اولمپک ریکارڈ رکھنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔
اب ستمبر ہے اور مقام ٹوکیو، یہی وہ جگہ ہے جہاں پانچویں پوزیشن نے ان میں اولمپک میڈل کی خواہش کو جنم دیا اور ایتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان نے انہیں نیا کوچ سلمان بٹ فراہم کیا، ساٹھ کی دہائی میں داخل، مضبوط جسم کے مالک اور کبھی کبھار غصہ کرنے والے کوچ سلمان بٹ خود 1980 کی دہائی میں ڈسکس تھرو کے چیمپئن رہ چکے ہیں اور انہوں نے وہ سہولیات استعمال کیں جو آج ارشد ندیم کو بھی میسر نہیں۔
پیرس نے ارشد ندیم کی شہرت اور آمدنی کو راتوں رات بڑھا دیا لیکن پاکستان میں، سوائے وزیرِاعظم شہباز شریف کے اسلام آباد میں ایک ایلیٹ ٹریننگ سینٹر کے منصوبے کے، ان کے پاس موجود خستہ حال سہولیات زیادہ نہیں بدلیں ۔
سلمان بٹے کہتے ہیں کہ ’جب ایتھلیٹس ترقی کرتے ہیں تو ان کی ٹیم کو بھی ترقی کرنی چاہیے،‘ ایک ہی آدمی کے شو کی تھکن ان کے طویل سانسوں اور بے نقاب جھنجھلاہٹ سے ظاہر تھی، وہ ارشد ندیم کے مینیجر، رابطہ کار، مترجم اور ان کے بقول ‘روحانی باپ’ سب کچھ ہیں۔
وہ ارشد ندیم کے لیے مقابلوں کے دوران فزیو نہ ہونے پر شکوہ کر رہے تھے کہ اسی دوران ان کے مختصر مدتی کوچ ترسیئس لیبن برگ، جو جنوبی افریقہ سے ہیں، لابی میں داخل ہوئے، انہوں نے پیشکش کی کہ جنوبی افریقہ کا ایک فزیوتھراپسٹ ارشد ندیم کی چوٹ زدہ پنڈلی پر کام کر سکتا ہے، اس یقین دہانی کے بعد سلمان واضح طور پر ریلیکس ہو گئے اور واپس صوفے پر ٹیک لگا لی۔
پیرس اولپمکس کو ایک سال گزرنے کے بعد، ارشد ندیم کے لیے سب کچھ اور کچھ بھی نہیں بدلا۔
انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’میرا مطلب ہے، میں اب بھی وہی ہوں، لیکن زندگی بدل گئی ہے، زیادہ محبت ہے، زیادہ عزت ہے، لوگ ایئرپورٹ پر مجھے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، سیلفیاں بنواتے ہیں، ایک ایتھلیٹ کے لیے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لوگ آپ کو اولمپیئن کے طور پر پہچانیں۔‘
ان کے انسٹاگرام پوسٹس اور لباس کے انداز سے بھی یہ ظاہر تھا، ایک تقریب میں ارشد ندیم نے بزنس کیژول سوٹ، اسنیکرز اور کیپ پہنی، کہ وہ اس عالمی شہرت میں ڈھل چکے ہیں جو اولمپک گولڈ میڈل کے ساتھ آتی ہے۔
سلمان بٹ نے کہا کہ ’ توقعات کا بوجھ ان پر نہیں ہے، اس کا کام ہے ٹرین کرنا، نیزہ پھینکنا اور وہ ریکارڈ قائم کرنا جو پہلے کبھی نہ ہوئے ہوں،’ تاہم ارشد ندیم میں ایک چیز بدلی نہیں، اور وہ ہے جدوجہد کرنے والے لوگوں کی مدد کرنے کی خواہش۔
شاید سب سے بڑی تبدیلی، جیسا کہ انہوں نے اور سلمان بٹ نے بتایا، یہ ہے کہ اگلے سال وہ پاکستان سے باہر تربیت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ان کے چوٹ زدہ جسم کو لاہور کی ریکارڈ گرمی اور نمی سے بہتر ماحول مل سکے۔
پیرس کے لیے جیت کا سادہ فارمولا ٹوکیو سے پہلے مشکوک ہے، اس معنی میں نہیں کہ ان کی اولمپک فتح ایک حادثہ تھی بلکہ اعداد و شمار میں لپٹی حقیقتوں کی وجہ سے۔ ارشد ندیم نے اس سیزن میں صرف ایک مقابلہ کیا ہے جس میں مئی میں 86.40 میٹر کا نسبتاً کمزور تھرو رہا۔ پنڈلی کی چوٹ کی وجہ سے جون میں انہیں سرجری کروانی پڑی تھی، پھر برطانیہ میں بحالی کا عمل ہوا، جہاں وہ یورپ میں دو ڈائمنڈ لیگ میں شرکت کی تیاری کر رہے تھے مگر اگست میں دستبردار ہو گئے۔
ارشد ندیم نے کہا کہ’ چوٹیں لگتی ہیں، آپ مقابلوں سے باہر ہوتے ہیں؛ یہ کھیلوں میں ہوتا رہتا ہے۔’ کم لوگ جانتے ہیں کہ پیرس میں انہوں نے پنڈلی کی چوٹ کے باوجود گولڈ میڈل جیتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ’ میرا جسم اچھا محسوس کر رہا ہے، میں کافی فٹ ہوں، کوالیفائرز ( بدھ کو) دکھائیں گے کہ میں کہاں کھڑا ہوں اور پھر فائنل کے لیے توقعات قائم ہوں گی۔’
واہگہ جیسا منظر؟
پاکستان اور بھارت کے نیزہ بازوں کا ٹکراؤ شاید اس سے زیادہ پرجوش وقت پر نہیں ہو سکتا تھا، چند روز قبل ایشیا کپ کرکٹ میچ میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان ہینڈ شیک نہ ہونے پر بیانات، وضاحتوں، تجزیوں اور جذباتی ردعمل کی آندھی برپا کر دی تھی۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ آیا جاپان نیشنل اسٹیڈیم میں واہگہ بارڈر جیسے مناظر ہوں گے: ارشد اور نیرج چوپڑا درمیان میں آ کر ملیں گے لیکن شاید نہیں؛ ایک دوسرے کو قریب سے دیکھیں گے جیسے گلے ملنے والے ہوں مگر نہیں؛ جیسے بھائی جو کبھی ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے اور اب شاید کبھی نہ کریں، کیا ہم نیزوں کو برچھیوں سے تشبیہ دے سکتے ہیں؟
جب ان سے نیرج کے ساتھ موجودہ تعلقات کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشد ندیم نے کہا کہ ہوٹل میں ’ چلتے پھرتے سلام دعا’ ہو جاتی ہے، انہوں نے پاکستان-بھارت کشیدگی پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا، نیرج نے بھی جمعرات کے جیولن فائنل تک کوئی انٹرویو دینے سے انکار کیا ہے۔
سلمان بٹ نے اس سوال پر زیادہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کہ کیا پاکستان اور بھارت ہمیشہ کھیلوں میں ایک دوسرے کی ضد رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ’ پاکستان اور بھارت کی ایک فطری مسابقت ہے، لوگ ہمیشہ اس مقابلے کو دیکھنے کے لیے پرجوش رہتے ہیں، میری صرف یہ خواہش ہے کہ یہ ایک صحت مند مقابلہ ہو، بس ایتھلیٹ اور ایتھلیٹ کی طرح، جیسے دیگر ٹیموں میں ہوتا ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ’ کھیلوں کی روح غالب آنی چاہیے، ہم سب کو ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔’
یہی وہ کھلاڑی ہیں جو اپنے اہداف پر توجہ مرکوز کرنا جانتے ہیں اور جب وقت آتا ہے تو بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں، چاہے ہینڈ شیک ہو یا نہ ہو، کھیل جاری رہے گا۔