ٹرمپ تاریخی دورے پر برطانیہ پہنچ گئے، شاہانہ استقبال، احتجاجی مظاہرے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ برطانیہ کے تاریخی سرکاری دورے پر لندن پہنچ گئے، جہاں ان کا شاہانہ استقبال کیا گیا، برطانوی وزیراعظم کو دورے سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل ہونے کی امید ہے، ٹرمپ کے خلاف ونڈسر میں مظاہرے بھی کیے گئے، پولیس نے کئی مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر اپنی اہلیہ کے ہمراہ تاریخی سرکاری دورے پر برطانیہ پہنچ گئے، لندن کے ایئرپورٹ سے ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا برطانوی شاہی خاندان کی رہائش گاہ وِنڈسر کیسل پہنچے، جہاں بادشاہ چارلس، ان کی اہلیہ کوئن کمیلا، ولی عہد شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیتھرین نے ان کا استقبال کیا، اس کے بعد قلعے کے احاطے میں ایک بگھی کی سواری ہوئی۔
ٹرمپ، جو شاہی خاندان کے کھلے مداح ہیں، اس بات کو چھپاتے نہیں کہ وہ نہ صرف پہلے امریکی صدر ہیں بلکہ پہلے منتخب سیاست دان ہیں جنہیں کسی برطانوی بادشاہ نے دو سرکاری دوروں کے لیے مدعو کیا۔
اپنی آمد پر انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ انہیں برطانیہ بہت پسند ہے، انہوں نے کہا کہ ’ یہ ایک بہت خاص جگہ ہے۔’
برطانیہ کی امیدیں، خصوصی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا
وزیراعظم کیئر اسٹارمر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس جذبے کو برطانیہ کے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے ’ خصوصی تعلقات’ کو مضبوط کیا جا سکے، معاشی تعلقات گہرے ہوں، اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل ہو، ٹیرف پر بات ہو اور یوکرین اور اسرائیل کے بارے میں امریکی صدر سے بات کی جا سکے۔
مائیکروسافٹ، این ویڈیا، گوگل اور اوپن اے آئی سمیت کمپنیوں نے پہلے ہی برطانیہ میں آنے والے چند برسوں کے دوران 31 ارب پاؤنڈ (42 ارب ڈالر) کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، جو مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ اور سول نیوکلیئر انرجی کے شعبوں میں ہو گی۔
کیئر اسٹارمر مزید تجارتی پیش رفت چاہتے ہیں، خاص طور پر اس پہلے معاہدے کے بعد جس میں ٹرمپ کے دور میں کچھ ٹیرف کم کیے گئے، بات چیت اسٹیل، وِسکی اور سالمن پر باقی ماندہ ڈیوٹیوں پر بھی ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ نے منگل کو وائٹ ہاؤس سے روانہ ہوتے ہوئے کہا تھا کہ’ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ تجارتی معاہدے کو تھوڑا بہتر کر سکتے ہیں۔’
لیکن جہاں اسٹارمر اس ’ شاہی کشش’ پر بھروسہ کر رہے ہیں جو امریکی صدر کی جڑیں اسکاٹ لینڈ سے ہونے کے باعث بڑھ جاتی ہے، وہاں برطانیہ کے وزیراعظم کے لیے کئی خطرات موجود ہیں۔
سروے ظاہر کرتے ہیں کہ ٹرمپ برطانیہ میں مقبول نہیں اور کیئر اسٹارمر کو اپنی گرتی ہوئی مقبولیت اور معاشی مسائل کے بیچ یہ دکھانا ہوگا کہ وہ شاہی کارڈ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ایپسٹین تنازع اور مظاہرے
گزشتہ ہفتے کیئر اسٹارمر نے امریکا میں برطانوی سفیر پیٹر مینڈلسن کو ان کے جنسی جرائم میں سزایافتہ ایپسٹین سے تعلقات کی وجہ سے برطرف کردیا تھا جس سے ان کے اور ٹرمپ کے لیے سوالات پیدا ہو سکتے ہیں، کیونکہ ٹرمپ کے ایپسٹین سے تعلقات بھی زیر بحث آئے ہیں۔
ونڈسر میں بڑے پیمانے پر پولیس آپریشن کے میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا کیونکہ قلعے کے ایک ٹاور پر ٹرمپ اور ایپسٹین کی تصاویر پروجیکٹ کردی گئی تھیں، اس وقت ٹرمپ وہاں موجود نہیں تھے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق لندن میں برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے بی بی سی کے مرکزی لندن ہیڈکوارٹر کے باہر مظاہرین نے صدر ٹرمپ کے دورے کے خلاف احتجاج کیا، مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر ’ No to Trump ’ اور ’ Stop arming Israel ’ کے نعرے درج تھے۔
خیال رہے کہ لندن میں ’ اسٹاپ دی ٹرمپ کولیشن’ کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے 1600 اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
دارالحکومت میں عام لوگ اس دورے کے بارے میں ملے جلے خیالات رکھتے ہیں، کچھ دعوت پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں تو کچھ اسے ہوشیار سیاست اور برطانیہ کی ’ نرم طاقت’ کا اچھا استعمال سمجھ رہے ہیں۔
ٹرمپ کا شاہانہ استقبال
آج کا دن زیادہ تر تقریبات پر مشتمل ہوگا، سب سے پہلے ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا کا استقبال بادشاہ کے بڑے بیٹے شہزادہ ولیم اور کیتھرین نے کیا، جنہیں صدر نے ’ بہت خوبصورت’ کہا۔
بعد میں بادشاہ چارلس اور کوئن کمیلا ٹرمپ جوڑے کے ساتھ بگھی کی سواری میں شامل ہوئے، جہاں راستے کے دونوں جانب 1,300 برطانوی فوجی اہلکار کھڑے تھے۔
صدر نے بادشاہ سے بات چیت اور مسکراہٹ کے تبادلے کے بعد سرخ یونیفارم اور بئیرسکن ہیٹس پہنے فوجیوں کا معائنہ کیا۔
بعد میں شاہی خاندان امریکی صدر اور خاتونِ اول کو شاہی کلیکشن سے امریکا سے متعلق تاریخی اشیاء دکھائے گا، اس کے بعد ٹرمپ سینٹ جارج چیپل جائیں گے جہاں ملکہ الزبتھ کی آخری آرام گاہ ہے ، وہی ملکہ جنہوں نے 2019 میں ان کے پہلے سرکاری دورے پر ان کی میزبانی کی تھی، ٹرمپ وہاں ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائیں گے۔
ایک فضائی پریڈ بھی ہوگی جس میں برطانوی اور امریکی ایف-35 فوجی طیارے شامل ہوں گے، جو امریکا-برطانیہ دفاعی تعاون کی علامت ہیں، اس کے بعد ایک شاندار ضیافت ہوگی جس میں بادشاہ اور صدر دونوں خطاب کریں گے۔
چارلس کے لیے یہ دورہ جذباتی طور پر ملاجلا ہو سکتا ہے، ان کے اور ٹرمپ کے درمیان زیادہ مماثلت نہیں، پچاس برس سے ماحولیاتی مقاصد کے حامی رہنے والے چارلس مذہبی ہم آہنگی کے بھی حامی ہیں اور حال ہی میں کینیڈا کی حمایت میں پختہ موقف اختیار کر چکے ہیں، لیکن یہ موقع انہیں تاج پوشی کے بعد سب سے زیادہ عالمی توجہ بھی دے گا۔
جمعرات کو کارروائی کیئر اسٹارمر کی چیکرز کاؤنٹری رہائش گاہ پر منتقل ہو جائے گی، جہاں توجہ جغرافیائی سیاست پر ہوگی۔