Dawn News Television

شائع 02 اکتوبر 2013 02:17pm

دماغ کی مونچھیں

کہتے ہیں کہ نہ کوئی شخص اتنا حسین ہو سکتا ہے جتنا وہ اپنی فیس بک پروفائل پر لگی تصویر میں نظر آتا ہے اور نہ اتنا ہونق جتنا وہ اپنی شناختی کارڈ پر لگی تصویر میں دکھائی دیتا ہے۔

مجھے حسین ہونے کا دعویٰ تو اس عمر میں بھی نہیں رہا جب سائے دھانی ہوتے تھے اور دھوپ گلابی ہوتی تھی لیکن اپنے شناختی کارڈ پر لگی تصویر دیکھتے ہوئے کچھ دن پہلے میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں یہ تصویر کھنچوانے سے پہلے اپنی ناک کے نیچے لگی ہوئی باریک سی لکیر مٹوانے کے لیے کسی حجام کی خدمات حاصل کر لیتا تو ہر بار شناختی کارڈ فوٹو کاپی کرواتے وقت وہ خفت نہ اٹھانی پڑتی جو دکان دار کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوتی دیکھ کے ہوتی ہے۔

یوں تو اس تصویر میں اپنے چہرے پر لگی مونچھوں کی تہمت کی وجہ سے کئی بار شناختی کارڈ پر تصویر بدلوانے کے بارے میں سوچ چکا ہوں لیکن میری ازلی سستی کی وجہ سے ہر بار بات صرف فوٹو کاپی کی دکان بدلنے پر ٹل جاتی ہے۔

وہ تصویر تو میں نہیں بدل سکا لیکن اس تصویر، اس پر موجود مونچھوں اور اس کے علاوہ باقی اقسام کی مونچھوں کے بارے میں میرے خیالات اپنی تمام تر سستی کے باوجود کافی حد تک بدل چکے ہیں۔

جس زمانے میں میرا شناختی کارڈ بنا ان دنوں میں اپنی مونچھوں سے عشق میں مبتلا تھا۔ اس وقت میرے چہرے پر نمایاں ترین چیز یعنی میری ناک کو انڈر لائن کرنے والے اس باریک سی لکیر کو مٹانے کا مشورہ دینے والے میرے خاندان میں بہت تھے۔ میں ایسے تمام مشیروں کو اپنا اور اپنی مونچھوں کا دشمن اور ان کے مشوروں کو اپنی بلکہ اپنے سارے خاندان کی انڈر لائن شدہ ناکوں کی خلاف سازش سمجھتا تھا۔

ان دنوں مجھے اپنی مونچھوں سے بہت محبت تھی۔ مونچھوں سے میری محبت کی بنیاد نظریاتی تھی اور وہ نظریہ دو قومی نظریہ تھا یعنی میرا خیال یہ تھا کہ دنیا میں دو قومیں آباد ہیں ایک قوم میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن کے مونچھیں ہیں اور دوسری میں وہ جنہیں خدا نے مونچھیں رکھنے کی توفیق نہیں دی۔

اس نظریے کے بنیاد پر میں نے اپنی پالیسیاں ترتیب دیں تھیں۔

داخلہ پالیسی یہ تھی کہ اگر میرے خاندان کی شوریٰ (جو کہ دھماکوں کی بالکل قائل نہیں تھی) مجھے دھونس اور دھمکیوں کے ذریعے بھی اپنی مونچھوں میں کسی قسم کی ترمیم کے لیے کہتی تو میں ترمیم تو کیا اس موضوع پر مذاکرات کے لیے بھی تیار نہ ہوتا۔

خارجہ تعلقات میں بھی ان دنوں میری مونچھوں کو اتنی ہی اہمیت حاصل تھی جتنی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں دو قومی نظریے کے پیکر یعنی طالبان کو حاصل ہے۔

مطلب یہ کہ میرے ارد گرد موجود لوگوں میں سے جسے میری مونچھوں پر کوئی اعتراض ہوتا اسے میں دشمنوں کی غیر اعلانیہ فہرست میں شامل کر لیتا۔

بات بلاوجہ سیاست کی طرف نکل گئی قصہ مختصر یہ کہ مجھے اپنی مونچھوں سے اتنی محبت تھی جتنی شاید میاں صاحبان اور خان صاحب کو طالبان سے بھی نہیں ہو گی۔

وجہ اس محبت کی یہ تھی کہ میں مونچھوں کو مردانگی کی علامت سمجھتا تھا بلکہ یوں کہیں کہ میرا خیال یہ تھا کہ پانچ فٹ کے ایک مرد میں جتنی مردانگی ہو سکتی ہے وہ ساری کی ساری میر ی ان سوا دو انچ کی مونچھوں میں سمائی ہوئی ہے۔

محبت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مردانگی کی یہ علامت میں نے اپنے منہ پہ بہت محنت سے، ابا کے سیفٹی ریزر سے ناک کے نیچے ہل چلا چلا کے اگائی تھی۔

کھاؤ گے نہیں تو بڑے کیسے ہو گے کا زمانہ گزرنے کے کافی عرصے بعد ہمیں پتا چلا کہ ہمارے ماں باپ بھی اور بہت سے بچوں کے اماں ابا کی طرح ہمیں چکمہ دیتے رہے ہیں اور بڑے ہونے کا تعلق کھانے پینے سے کہیں زیادہ مونچھیں نکلنے سے ہوتا ہے۔

بہت محنت کر کے کند بلیڈ والے سیفٹی ریزر سے کئی بار کھال چھیلنے کے بعدجب سکول کی جوتوں کے تسموں جیسی مونچھیں ہمارے منہ پر برآمد ہوئیں تب ہمیں اپنے بڑے ہونے کا یقین آیا۔

ہم ابھی 'مچھ نہیں تے کچھ نئیں' کہتے کہتے بلوغت میں داخل ہی ہوئے تھے کہ سائیکالوجی کی کتابیں پڑھنے کو مل گئیں اور انہیں پڑھ کے پتا چلا کہ بلوغت میں آنے والی جسمانی تبدیلیاں کیا ہوتی ہیں ان کتابوں نے مونچھوں سے ہمارے رومانس کا ستیاناس مار دیا۔

اس رومانس کا ستیاناس کرنے کے لیے ان کتابوں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ یہ تبدیلیاں تو نمو کی روٹین کا ایک چھوٹا سا مرحلہ ہیں جن سے ہر لڑکا اور لڑکی گزرتی ہے ورنہ ہم تو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ جیسی مونچھیں ہماری نکلی ہیں ویسی کسی کے کاہے کو نکلی ہوں گی۔

اور کچھ وقت گزرا تو پتا چلا کہ نمو جسم کی ہی نہیں دماغ کی بھی ہوتی ہے اور وہ یوں کہ دماغ نے پوچھنا شروع کر دیا کہ اگر یہ تبدیلیاں لڑکوں اور  لڑکیوں دونوں کے حصے میں آتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ لڑکوں کو ان پر فخر کرنا اور لڑکیوں کو ان پہ شرم کھانا سکھایا جاتا ہے؟

کتابیں پھر مدد کو آ گئیں۔ لیکن اب کے سائیکالوجی کے کورس کی کتابیں نہیں۔ عصمت چغتائی اور منٹو جیسے فحش نگاروں کو پڑھا تو اوریا مقبول جان کی طرح جذبات میں اتھل پتھل تو نہ ہوئی یہ بات ضرور سمجھ میں آ گئی کہ لڑکوں کی مسیں بھیگنے پر کونڈوں کے نیاز دلوانے اور لڑکی کے جوان ہونے پر جنموں جلی دوپٹہ آگے کو لے کہنے کے پیچھے جسم کم ہے اور معاشرہ زیادہ۔

آج سوچتا ہوں کہ مردانگی کا مونچھوں سے اور لڑکی ہونے کا دوپٹے سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ بڑھتی عمر کے یہ تقاضے جس وقت ہم پر سوار تھے اس وقت نہ والدین نے سمجھایا نہ ہم میں خود اتنی عقل تھی کہ یہ سمجھ سکتے کہ مردانگی یا نسوانیت کو جسمانی ہیّت یا اس میں تبدیلیوں کے ساتھ جوڑنے والوں کو بالغ ہونے سے پہلے تو کم عمری، ناپختگی یا ہارمون کے چکر وغیرہ کی رعایت دی جا سکتی ہے لیکن بالغ ہونے کے بعد لوگوں کو مونچھوں کی لمبائی یا دوپٹوں کی چوڑائی سے ناپنے والوں کے دماغ کی نمو چیک کروانا بہت ضروری ہوتا ہے۔

چند دن پہلے جب سے یہ پتا چلا ہے کہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی جنم جلی لڑکیوں کو دوپٹہ نہ لینے اور جینز پہننے پر جرمانوں کی سزا دے رہی ہے تب سے یہ سوچ رہا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں تو معاشرے کا دماغ پلتا بڑھتا ہے اس کی بلوغت کون ناپ سکتا ہے۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ ابا کی کوئی کند سیفٹی ڈھونڈوں اور یونیورسٹی انتظامیہ کے عقل پہ رگڑ رگڑ کے پھیروں شاید ان کے دماغ کی مونچھیں نکل آئیں۔


Read Comments