abro-mobarak-670
لوگوں کو مونچھوں کی لمبائی یا دوپٹوں کی چوڑائی سے ناپنے والوں کا دماغی چیک اپ بہت ضروری ہے -- سلمان حیدر | السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

کہتے ہیں کہ نہ کوئی شخص اتنا حسین ہو سکتا ہے جتنا وہ اپنی فیس بک پروفائل پر لگی تصویر میں نظر آتا ہے اور نہ اتنا ہونق جتنا وہ اپنی شناختی کارڈ پر لگی تصویر میں دکھائی دیتا ہے۔

مجھے حسین ہونے کا دعویٰ تو اس عمر میں بھی نہیں رہا جب سائے دھانی ہوتے تھے اور دھوپ گلابی ہوتی تھی لیکن اپنے شناختی کارڈ پر لگی تصویر دیکھتے ہوئے کچھ دن پہلے میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں یہ تصویر کھنچوانے سے پہلے اپنی ناک کے نیچے لگی ہوئی باریک سی لکیر مٹوانے کے لیے کسی حجام کی خدمات حاصل کر لیتا تو ہر بار شناختی کارڈ فوٹو کاپی کرواتے وقت وہ خفت نہ اٹھانی پڑتی جو دکان دار کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوتی دیکھ کے ہوتی ہے۔

یوں تو اس تصویر میں اپنے چہرے پر لگی مونچھوں کی تہمت کی وجہ سے کئی بار شناختی کارڈ پر تصویر بدلوانے کے بارے میں سوچ چکا ہوں لیکن میری ازلی سستی کی وجہ سے ہر بار بات صرف فوٹو کاپی کی دکان بدلنے پر ٹل جاتی ہے۔

وہ تصویر تو میں نہیں بدل سکا لیکن اس تصویر، اس پر موجود مونچھوں اور اس کے علاوہ باقی اقسام کی مونچھوں کے بارے میں میرے خیالات اپنی تمام تر سستی کے باوجود کافی حد تک بدل چکے ہیں۔

جس زمانے میں میرا شناختی کارڈ بنا ان دنوں میں اپنی مونچھوں سے عشق میں مبتلا تھا۔ اس وقت میرے چہرے پر نمایاں ترین چیز یعنی میری ناک کو انڈر لائن کرنے والے اس باریک سی لکیر کو مٹانے کا مشورہ دینے والے میرے خاندان میں بہت تھے۔ میں ایسے تمام مشیروں کو اپنا اور اپنی مونچھوں کا دشمن اور ان کے مشوروں کو اپنی بلکہ اپنے سارے خاندان کی انڈر لائن شدہ ناکوں کی خلاف سازش سمجھتا تھا۔

ان دنوں مجھے اپنی مونچھوں سے بہت محبت تھی۔ مونچھوں سے میری محبت کی بنیاد نظریاتی تھی اور وہ نظریہ دو قومی نظریہ تھا یعنی میرا خیال یہ تھا کہ دنیا میں دو قومیں آباد ہیں ایک قوم میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن کے مونچھیں ہیں اور دوسری میں وہ جنہیں خدا نے مونچھیں رکھنے کی توفیق نہیں دی۔

اس نظریے کے بنیاد پر میں نے اپنی پالیسیاں ترتیب دیں تھیں۔

داخلہ پالیسی یہ تھی کہ اگر میرے خاندان کی شوریٰ (جو کہ دھماکوں کی بالکل قائل نہیں تھی) مجھے دھونس اور دھمکیوں کے ذریعے بھی اپنی مونچھوں میں کسی قسم کی ترمیم کے لیے کہتی تو میں ترمیم تو کیا اس موضوع پر مذاکرات کے لیے بھی تیار نہ ہوتا۔

خارجہ تعلقات میں بھی ان دنوں میری مونچھوں کو اتنی ہی اہمیت حاصل تھی جتنی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں دو قومی نظریے کے پیکر یعنی طالبان کو حاصل ہے۔

مطلب یہ کہ میرے ارد گرد موجود لوگوں میں سے جسے میری مونچھوں پر کوئی اعتراض ہوتا اسے میں دشمنوں کی غیر اعلانیہ فہرست میں شامل کر لیتا۔

بات بلاوجہ سیاست کی طرف نکل گئی قصہ مختصر یہ کہ مجھے اپنی مونچھوں سے اتنی محبت تھی جتنی شاید میاں صاحبان اور خان صاحب کو طالبان سے بھی نہیں ہو گی۔

وجہ اس محبت کی یہ تھی کہ میں مونچھوں کو مردانگی کی علامت سمجھتا تھا بلکہ یوں کہیں کہ میرا خیال یہ تھا کہ پانچ فٹ کے ایک مرد میں جتنی مردانگی ہو سکتی ہے وہ ساری کی ساری میر ی ان سوا دو انچ کی مونچھوں میں سمائی ہوئی ہے۔

محبت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مردانگی کی یہ علامت میں نے اپنے منہ پہ بہت محنت سے، ابا کے سیفٹی ریزر سے ناک کے نیچے ہل چلا چلا کے اگائی تھی۔

کھاؤ گے نہیں تو بڑے کیسے ہو گے کا زمانہ گزرنے کے کافی عرصے بعد ہمیں پتا چلا کہ ہمارے ماں باپ بھی اور بہت سے بچوں کے اماں ابا کی طرح ہمیں چکمہ دیتے رہے ہیں اور بڑے ہونے کا تعلق کھانے پینے سے کہیں زیادہ مونچھیں نکلنے سے ہوتا ہے۔

بہت محنت کر کے کند بلیڈ والے سیفٹی ریزر سے کئی بار کھال چھیلنے کے بعدجب سکول کی جوتوں کے تسموں جیسی مونچھیں ہمارے منہ پر برآمد ہوئیں تب ہمیں اپنے بڑے ہونے کا یقین آیا۔

ہم ابھی 'مچھ نہیں تے کچھ نئیں' کہتے کہتے بلوغت میں داخل ہی ہوئے تھے کہ سائیکالوجی کی کتابیں پڑھنے کو مل گئیں اور انہیں پڑھ کے پتا چلا کہ بلوغت میں آنے والی جسمانی تبدیلیاں کیا ہوتی ہیں ان کتابوں نے مونچھوں سے ہمارے رومانس کا ستیاناس مار دیا۔

اس رومانس کا ستیاناس کرنے کے لیے ان کتابوں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ یہ تبدیلیاں تو نمو کی روٹین کا ایک چھوٹا سا مرحلہ ہیں جن سے ہر لڑکا اور لڑکی گزرتی ہے ورنہ ہم تو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ جیسی مونچھیں ہماری نکلی ہیں ویسی کسی کے کاہے کو نکلی ہوں گی۔

اور کچھ وقت گزرا تو پتا چلا کہ نمو جسم کی ہی نہیں دماغ کی بھی ہوتی ہے اور وہ یوں کہ دماغ نے پوچھنا شروع کر دیا کہ اگر یہ تبدیلیاں لڑکوں اور  لڑکیوں دونوں کے حصے میں آتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ لڑکوں کو ان پر فخر کرنا اور لڑکیوں کو ان پہ شرم کھانا سکھایا جاتا ہے؟

کتابیں پھر مدد کو آ گئیں۔ لیکن اب کے سائیکالوجی کے کورس کی کتابیں نہیں۔ عصمت چغتائی اور منٹو جیسے فحش نگاروں کو پڑھا تو اوریا مقبول جان کی طرح جذبات میں اتھل پتھل تو نہ ہوئی یہ بات ضرور سمجھ میں آ گئی کہ لڑکوں کی مسیں بھیگنے پر کونڈوں کے نیاز دلوانے اور لڑکی کے جوان ہونے پر جنموں جلی دوپٹہ آگے کو لے کہنے کے پیچھے جسم کم ہے اور معاشرہ زیادہ۔

آج سوچتا ہوں کہ مردانگی کا مونچھوں سے اور لڑکی ہونے کا دوپٹے سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ بڑھتی عمر کے یہ تقاضے جس وقت ہم پر سوار تھے اس وقت نہ والدین نے سمجھایا نہ ہم میں خود اتنی عقل تھی کہ یہ سمجھ سکتے کہ مردانگی یا نسوانیت کو جسمانی ہیّت یا اس میں تبدیلیوں کے ساتھ جوڑنے والوں کو بالغ ہونے سے پہلے تو کم عمری، ناپختگی یا ہارمون کے چکر وغیرہ کی رعایت دی جا سکتی ہے لیکن بالغ ہونے کے بعد لوگوں کو مونچھوں کی لمبائی یا دوپٹوں کی چوڑائی سے ناپنے والوں کے دماغ کی نمو چیک کروانا بہت ضروری ہوتا ہے۔

چند دن پہلے جب سے یہ پتا چلا ہے کہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی جنم جلی لڑکیوں کو دوپٹہ نہ لینے اور جینز پہننے پر جرمانوں کی سزا دے رہی ہے تب سے یہ سوچ رہا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں تو معاشرے کا دماغ پلتا بڑھتا ہے اس کی بلوغت کون ناپ سکتا ہے۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ ابا کی کوئی کند سیفٹی ڈھونڈوں اور یونیورسٹی انتظامیہ کے عقل پہ رگڑ رگڑ کے پھیروں شاید ان کے دماغ کی مونچھیں نکل آئیں۔


Salman Haider شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں

تبصرے (10) بند ہیں

deehanrarsi Oct 02, 2013 04:03pm
janab patey ki baat to aap ne bilkul aakhir main kahi, lakin kamal hey kya khoob kahi
Dr.Tariq Abbasi PhD Oct 02, 2013 06:14pm
Dear Salman Every Society has some norms and reaction against social changes should be seen in that particular context. I think majority of our people do not support girls in Jeans. It is very upsetting that our liberals attacks the norms of our society in the same ruthless way as many religious extremists stand against legitimate personal choices. A well balanced moderate person feels himself sandwiched between two equal but opposite evils.
Masud Alam Oct 03, 2013 05:45am
Salman Haider aap ki tehreer itni khubsoorat aur khayalaat itnay rawaan hain k farmaish kiye bina raha nahin jaata. Aik sequel likh daliyee 'darhi' per jo khair se aap k chehray per bhi hei. Intizaar rahey ga
salman haider Oct 03, 2013 07:13am
chalain shukria dost kay aap nay aik to patay ki baat dhond hi nikalni mayri gup shup main say :) bohat sari batain karnay say blog kuch kuch jumay ka khutba bun jata hy so main koshish krta hn kay aik aadh baat hi krn...will try kay ainda us patay ki baat ko shuru say lay chalon upnay sath...thanx :)
salman haider Oct 03, 2013 07:34am
mayray educated moderate well balanced dost...jub sawal personal choice aur social order ka ayay ga to nighty percent of the times aap mujhay personal choice kay sath khara pa'ain gay...you think majority of people dont support girls in jeans...i think its none of their business...you think liberals attack the norms of our society the same ruthless way as many religious extremists do. i agree but liberals use only words not the suicide jackets or land mines or whipping etc so thers a small difference you see. by the way i am not liberal :)
salman haider Oct 03, 2013 07:37am
aap kion chahtay hain kay main upnay blog pay khudkash hamla kur dn :)
deehanrarsi Oct 03, 2013 04:38pm
well said, totally agree with u, mein khud jeans nahi pehnti, lakin is ka matlab ye nahi k ksi or larki ko jeans pehne dekh kr characterless samajhna shuru kr doon, apni pasand apni choice importance rakhti hey, maashrey ka bs chaley to larkion ko paida hote hi zinda dafan kr dein, wese larkiyan humaarr maashrey mein zinda dr gor hi to hein, wese agr waqai maashra larkion ko zinda dafan ker deta to kya tb bhi doctor sahab isey social norms ka hi naam dete, ya wo jo kaari kr di jaati hein ya jin ki Quraan se shaadi kr di jaati hey kya wo bhi social norms ka hissa hey??
Hasan Syed Oct 03, 2013 09:29pm
I loved the last line.... seriously not only universities... there are a several of segments in our society that needs safety razor to grow "Moonchain"
salman haider Oct 04, 2013 09:23am
shukriaa mohtaraam yeh sara safha is last line kay liay kaala kia tha khushi hoi kay aap ko pasand aae :)
Dr.Tariq Abbasi PhD Oct 04, 2013 12:55pm
@deehanrarsi and Salman I am totally against Wani, marriage with Quran, Kali, Kari and all other practices of ignorance and consider them inhuman, un-Islamic and anti social. I sincerely consider talbanization, religious extremism (other forms), radicalism and other violent approaches as real threat to our very existence. I teach life sciences at University of Karachi and preach patience and tolerance among my students. I am follower of sufi traditions and believes in purity of heart and soul which ultimately shines out through deeds, social behavior and character. The point I wanted to make was that we need to become proactive accommodating and not only authoritarian and reactive. A deep study of social structure, evolution and diversity accompanied with honest analysis will ultimately equip us with strategy to fight against the nuisance of extremism. All superficial approaches can make only little difference.