دنیا

افغان طالبان نے بگرام ایئربیس امریکا کو دینے کا ٹرمپ کا خیال مسترد کر دیا

تاریخ میں ہمیشہ افغانوں نے کسی فوجی موجودگی کو قبول نہیں کیا، یہ خیال دوحہ مذاکرات میں بھی مسترد کر دیا تھا، روابط رکھنے کیلئے دروازے کھلے ہیں، اہلکار وزارت خارجہ ذاکر جلالی

افغان طالبان کے عہدیدار نے بگرام ایئربیس امریکا کو دینے کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بگرام ایئربیس کے معاملے پر بات کی ہے، وہ سیاست سے ہٹ کر ایک کامیاب تاجر اور سوداگر ہیں اور بگرام کو دوبارہ حاصل کرنے کا ذکر بھی ’ڈیل‘ کے ذریعے کر رہے ہیں۔

وزارت خارجہ کے سینئر اہلکار ذاکر جلالی نے ’ایکس‘ پر اپنے پیغام میں کہا کہ افغانستان اور امریکا کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے اور وہ بغیر امریکا کی افغانستان کے کسی حصے میں فوجی موجودگی رکھے، باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر اقتصادی اور سیاسی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔

ذاکر جلالی نے کہا کہ فوجی موجودگی کو افغانوں نے تاریخ میں کبھی قبول نہیں کیا اور یہ امکان دوحہ مذاکرات اور معاہدے کے دوران بھی مکمل طور پر رد کیا گیا تھا، مگر دیگر تعلقات کے لیے دروازے کھلے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی صدر نے عندیہ دیا تھا کہ بگرام ایئربیس کو دوبارہ حاصل کرنا ممکن ہو سکتا ہے، کیونکہ انہیں (طالبان کو) ہم سے کچھ چیزیں چاہئیں۔

بی بی سی نیوز کے مطابق یہ ایئربیس، جو دو دہائیوں تک نیٹو افواج کا مرکز رہا، طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے سے کچھ ہی وقت قبل افغان فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔

ٹرمپ نے جمعرات کو برطانیہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ امریکا نے یہ ایئربیس انہیں مفت میں دے دی تھی۔

امریکی افواج کا مکمل انخلا 2020 میں ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے دوران کیے گئے معاہدے کا حصہ تھا، اور یہ عمل جو بائیڈن کی صدارت میں 2021 میں مکمل ہوا تھا۔

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ میں کہا تھا کہ ان کا منصوبہ بگرام ایئربیس کو رکھنے کا تھا، افغانستان کی وجہ سے نہیں بلکہ چین کی وجہ سے۔

انہوں نے جمعرات کو اس کے مقام کی اہمیت پر دوبارہ زور دیا اور کہا کہ بگرام واپس لینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ وہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار بناتا ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کس چیز کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، بی بی سی ویریفائی کی جولائی کی ایک تفتیش میں معلوم ہوا تھا کہ شمال مغربی چین میں تقریباً 2 ہزار کلومیٹر دور ایک جوہری ٹیسٹنگ سائٹ موجود ہے۔

ٹرمپ نے بار بار کہا ہے کہ چین نے اس ایئربیس پر اپنی موجودگی قائم کر لی ہے، جو کابل کے شمال میں واقع ہے، تاہم طالبان نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

بی بی سی کی ایک تحقیق (جس نے 2020 کے آخر سے 2025 تک کی 30 سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ لیا) میں طالبان کی واپسی کے بعد سے ایئربیس پر بہت کم سرگرمی دیکھی گئی اور چین کی موجودگی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

جمعہ کو چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چین، افغانستان کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتا ہے، اور افغانستان کا مستقبل افغان عوام کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔

دوسری طرف طالبان کے ذاکر جلال نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ تاریخ میں ہمیشہ افغانوں نے کسی فوجی موجودگی کو قبول نہیں کیا اور اس امکان کو دوحہ مذاکرات اور معاہدے کے دوران مکمل طور پر رد کیا گیا تھا، لیکن دیگر روابط کے دروازے کھلے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے رپورٹ کیا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان حالیہ دنوں میں بات چیت ہوئی ہے، حالانکہ ہفتے کو طالبان کے وزیرِ خارجہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات امریکی شہریوں پر مرکوز تھی جو افغانستان میں موجود ہیں۔