دنیا

افریقی ملک گنی کو فوجی سے سول حکومت کی طرف منتقل کرنے کیلئے ریفرنڈم

نئے آئین پر ووٹنگ میں 67 لاکھ اہل ووٹرز ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ میں ووٹ ڈال رہے ہیں، نیا آئین فوجی سربراہ مامادی ڈمبویا کو صدارتی انتخاب لڑنے کا موقع دیکر جمہوری حکومت کے قیام کا سبب بن سکتا ہے۔

مغربی افریقی ملک گنی میں طویل عرصے بعد ریفرنڈم ہو رہا ہے، جس میں نئے آئین پر ووٹنگ ہو رہی ہے، یہ آئین فوجی سربراہ مامادی ڈمبویا کو صدارتی انتخاب لڑنے کا موقع دے سکتا ہے اور ملک کو فوجی سے سول حکومت کی طرف منتقل کر سکتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق گنی میں پولنگ اسٹیشن اتوار کے روز کھل گئے ہیں، جہاں 67 لاکھ اہل ووٹرز ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ میں ووٹ ڈال رہے ہیں۔

نئے آئین کے تحت صدارتی مدت 5 سے بڑھا کر 7 سال کی جائے گی، جو ایک بار دوبارہ منتخب ہونے کے قابل ہوگی، اور ایک سینیٹ (ایوان بالا) بنایا جائے گا، جس کے ایک تہائی اراکین کو صدر براہِ راست نامزد کرے گا۔

دارالحکومت کوناکری میں جمعہ اور ہفتہ کو انتخابی مہم پر پابندی لگا دی گئی تھی، وہاں لوگ اتوار کو صبح سویرے ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر جمع ہوئے۔

’الجزیرہ‘ نے کوناکری سے رپورٹ کیا کہ حکومت نے سیکیورٹی فورسز تعینات کی ہیں اور ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 40 ہزار سے زیادہ سیکیورٹی اہلکار اس الیکشن کی حفاظت کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔

لوگ توقع کر رہے ہیں کہ ریفرنڈم کے نتیجے میں مسودہ آئین منظور ہو جائے گا، جسے کچھ لوگ متاثر کن اور ترقی پسند قرار دے رہے ہیں، تاہم جو لوگ اس ریفرنڈم کے مخالف ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ موجودہ فوجی حکمرانوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا جواز فراہم کرے گا۔

عبوری چارٹر میں کہا گیا تھا کہ موجودہ فوجی حکومت کا کوئی رکن الیکشن میں حصہ نہیں لے گا، لیکن بہت سے لوگ ڈرتے ہیں کہ یہ ریفرنڈم ایسا آئین لا سکتا ہے جو حکومت کے ہر رکن کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے گا۔

مبصرین اس ریفرنڈم پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ حکومت کی اپنی حکمرانی کو قانونی حیثیت دینے کی تازہ کوشش ہے، ایسے خطے میں جہاں 2023 کے بعد سے مغربی اور وسطی افریقہ میں 8 فوجی بغاوتوں نے سیاسی منظرنامے کو بدل دیا ہے۔

ریفرنڈم پر ڈمبویا کی طاقت ہتھیانے کی کوشش کے طور پر بھی تنقید کی گئی ہے، ان کی فوجی حکومت نے دسمبر کی وہ ڈیڈلائن بھی پوری نہیں کی جو اس نے سول حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کے لیے مقرر کی تھی، حالاں کہ وہ 4 سال پہلے اقتدار میں آئے تھے۔

ایک صدارتی انتخاب دسمبر میں طے ہے۔

اگرچہ فوجی سربراہ نے ابھی تک اعلان نہیں کیا کہ وہ صدارتی انتخاب لڑیں گے یا نہیں، مگر ان کی حکومت کے اختیار کردہ عبوری چارٹر میں کہا گیا تھا کہ بغاوت کے کسی رکن کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اتوار کی ووٹنگ غالباً منظور ہو جائے گی کیوں کہ دو بڑے اپوزیشن رہنماؤں، سیلو ڈیلین ڈائیلو اور معزول سابق صدر الفا کونڈے، نے ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

ڈائیلو اور کونڈے کی جماعتوں کی رجسٹریشن فی الحال معطل ہے، جب کہ ہیومن رائٹس واچ نے فوجی حکومت پر سیاسی مخالفین کو غائب کرنے کا الزام لگایا ہے جسے حکومت نے مسترد کر دیا ہے۔

ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان 2 سے 3 دن بعد متوقع ہے۔