نقطہ نظر

ڈیجیٹل محاذ پر دہشتگردوں کا بڑھتا اثرورسوخ، ’ہمیں ان سے حقیقی و مجازی دونوں دنیاؤں میں لڑنا پڑ رہا ہے‘

دہشتگرد گیمنگ ایپس، سوشل میڈیا اور اے آئی کو پروپیگنڈا اور اپنی تنظیم میں بھرتی کے لیے استعمال کررہے ہیں، جو بتاتا ہے کہ ریاست کے لیے بیانیے کی جنگ زمینی جنگ کی طرح مہلک ہوچکی ہے۔

گزشتہ سال ستمبر میں عسکریت پسندوں نے ضلع سوات میں ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا تھا جس میں ایک پولیس اہلکار شہید اور دو زخمی ہوئے تھے۔ یہ حملہ بذات خود کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں تھا کیونکہ سوات میں دہشتگردانہ حملے کوئی نئی بات نہیں۔ اس حملے میں جو چیز مختلف تھی وہ عسکریت پسندوں کی جانب سے اختیار کردہ طریقہ کار تھا۔

اگلے کئی دنوں کے دوران تفتیش کاروں نے حملے کے بارے میں سراغ حاصل کیے جس کی بعد میں انہوں نے تصدیق کی کہ یہ حملہ ایک دیسی ساختہ دھماکا خیز ڈیوائس (آئی ای ڈی) کے ذریعے کیا گیا تھا۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر ڈاکٹر زاہد اللہ نے بعدازاں ڈان کو بتایا کہ ’انہوں نے ایک دیسی ساختہ دھماکا خیز آلہ استعمال کیا تھا جسے پاور بینک سے بنایا گیا تھا جو عموماً موبائل فونز کو چارج کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے‘۔

ڈاکٹر زاہد اللہ نے کہا کہ تفتیش کاروں نے دہشت گردوں میں سے ایک کی تلاش کے لیے گھنٹوں سی سی ٹی وی فوٹیج کا مشاہدہ کیا جس شخص نے بعد میں پھر انہیں دو اور مشتبہ افراد کے نام بتائے۔ لیکن سب سے اہم پیش رفت تفتیش میں اس وقت ہوئی کہ جب عسکریت پسندوں نے انکشاف کیا کہ وہ ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے عام طریقے استعمال نہیں کرتے تھے۔ اس کے بجائے انہوں نے پب جی (PUBG) نامی ایک مشہور ویڈیو گیم میں چیٹ کی سہولت کا استعمال کیا۔

انہوں نے اس ویڈیو گیم کو اپنے نئے اراکین کی حوصلہ افزائی اور حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا۔ ڈی پی او نے وضاحت کی کہ ’عسکریت پسند اپنے گروپ کی تربیت اور حوصلہ افزائی کے لیے پب جی کھیلتے تھے اور وہ خفیہ طور پر آپس میں بات چیت کرنے کے لیے گیم کے چیٹ روم کا استعمال کرتے تھے‘۔

اس انکشاف سے اقتدار کی راہداریوں میں خطرے کی گھنٹی بجنی چاہیے تھی کہ ایک دہشت گرد تنظیم کا ایک مقامی ساتھی گیمنگ پلیٹ فارم کو نہ صرف اپنی تنظیم میں بھرتیوں کے لیے استعمال کر رہا تھا بلکہ حملوں کی منصوبہ بندی بھی اسی ایپلیکیشن پر ہورہی تھی، وہ بھی اس لیے کیونکہ ان چیٹ رومز تک رسائی یا نگرانی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیار میں کچھ نہیں۔

تاہم جب ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے استعمال کی بات آتی ہے تو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ آنکھ مچولی کا یہ کھیل نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں عام ہو چکا ہے۔

پروپیگنڈا کا بطور ہتھیار استعمال

ایک وقت تھا جب عسکریت پسند اپنا پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے اخبارات، رسالے، پوسٹرز، میگزین شائع کرتے تھے اور سی ڈیز تقسیم کرتے تھے۔ تاہم حالیہ برسوں میں وہ ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال میں ریاستی اداروں سے اگر زیادہ نہیں تو انہی کی طرح لیس ہو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ انتہا پسند دیگر ممالک میں اپنے ہم خیال جنگجوؤں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جنہوں نے انہیں اپنا پیغام پھیلانے اور حکومت کے واقعات کے ورژن کو چیلنج کرنے کے لیے جدید طریقے تیار کرنے میں مدد کی ہے۔ یہ آن لائن لڑائی، زمینی جنگ کے ساتھ لڑی جا رہی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جدید جنگ کس قدر پیچیدہ ہو چکی ہے جہاں ریاستی اور غیر ریاستی اداکار دونوں ایک جیسے آلات اور حکمت عملی استعمال کر رہے ہیں۔

حال ہی میں ایک نیا اور متعلقہ رجحان سامنے آیا ہے جس میں پاکستان میں حکومت کے زیرِانتظام سوشل میڈیا اکاؤنٹس جو گزشتہ کچھ برسوں میں بنائے گئے ہیں، اب عسکریت پسندی کے حوالے سے پوسٹس کا اشتراک کر رہے ہیں، عسکریت پسندوں کے پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حکومت کے بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں۔

اسی طرح کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ریاست کی پیغام رسانی کا مقابلہ کرنے کے لیے اتنے ہی سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا لیے ہیں۔

دہشت گرد تنظیم کے تحت چلائے جانے والے بہت سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس، بالخصوص ’ایکس‘ پر خبروں اور تحقیقی پلیٹ فارمز کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ یہ وہ اکاؤنٹس ہوتے ہیں جن پر اکثر نیلے رنگ کے ٹک بھی موجود ہوتے ہیں جن سے وہ رسمی معلوم ہوتے ہیں۔ اُن صارفین کی جانب سے ان اکاؤنٹس کو فالو کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جن کا خیال ہے کہ اکاؤنٹس حقیقی طور پر خبروں اور تحقیقی اداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

حال ہی میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ’ایکس‘ پر ریاست سے منسلک کئی اکاؤنٹس، عسکریت پسندوں کے واٹس ایپ اکاؤنٹس کے لنکس پوسٹ کیے اور پلیٹ فارم پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے پروپیگنڈے کو پھیلانے والے ان اکاؤنٹس کو بلاک کرے۔

کئی معاملات میں دہشت گردوں کا پروپیگنڈا اتنا ہی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جتنا کہ ان کے عسکریت پسند حملے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے عروج کے ساتھ جہاں پلیٹ فارم اکثر ریاستی اور عسکریت پسند گروپوں کے اکاؤنٹس کے درمیان فرق واضح طور پر نہیں بتا سکتے ہیں، وہیں دہشت گرد مقامی لوگوں کے غصے یا حکومت کے ساتھ ان کی ناراضی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس سے انہیں نئے اراکین بھرتی کرنے اور اپنی سرگرمیوں کے لیے رقم جمع کرنے میں مدد ملتی ہے۔

آف لائن بمقابلہ آن لائن

فی الوقت ہر عسکریت پسند گروپ چاہے وہ جہادی تنظیمیں ہوں یا بلوچ علیحدگی پسند گروپ، سب نے پروپیگنڈا ٹیمیں بنا رکھی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹی ٹی پی کی پروپیگنڈا ٹیم مکمل طور پر زمینی کارروائیوں میں حصہ لیے بغیر تنظیم کی پروپیگنڈا کوششوں کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔

ٹی ٹی پی کے بعد تین پاکستانی جہادی دھڑوں کا ابھرتا ہوا اتحاد، اتحاد المجاہدین پاکستان (آئی ایم پی) بھی اپنی پروپیگنڈا کوششوں میں نمایاں پیش رفت لایا ہے۔ یہ اتحاد اعلیٰ معیار کا کثیر لسانی مواد تیار کرتا ہے جس میں انفوگرافکس، تربیت اور حملوں پر مشتمل ویڈیوز، اپنے متعلقہ حلقوں کو متاثر کرنے کے لیے مخصوص سیاق و سباق اور واقعات کے مطابق بنائے گئے پوسٹرز اور اتحاد کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے بارے میں روزانہ اپ ڈیٹ فراہم کرنے والے بیانات شامل ہیں۔

دنیا بھر میں جہادی اپنے ایجنڈے کا عالمی سطح پر پرچار کرنے کی صلاحیتوں میں کافی حد تک اچھے ہوچکے ہیں جس سے کسی کے لیے بھی رضاکارانہ طور پر ’ڈیجیٹل‘ جہاد کا حصہ بننے کا در کھل چکا ہے۔ یہ رضاکار ایک دوسرے سے ذاتی طور پر مل نہیں سکتے لیکن پھر بھی وہ جہادی پیغامات شیئر کرنے میں مدد کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے اور جہادی مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں اور بدلے میں مالی منافع کی توقع بھی نہیں کرتے۔

اس تناظر میں داعش اور اس کے علاقائی گروہ جیسے داعش خراسان نے دیگر افراد کو متاثر کرنے کے لیے ڈیجیٹل پروپیگنڈے کی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے، روس سے لے کر امریکا تک پوری دنیا میں حملوں کی منصوبہ بندی یا کوشش کی ہے۔ وہ بات چیت کے لیے جدید، خفیہ طریقے بھی استعمال کرتے ہیں جن کا سراغ لگانا مشکل ہے۔ اس کی وجہ سے انہوں نے ہر جگہ اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے جس سے حکومتوں کے لیے انہیں قابو کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے سیکیورٹی تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بیانیے کی جنگ جیتنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ زمینی جنگ۔

سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کے رجحان میں اضافے نے عسکریت پسند گروہوں کو اپنے خیالات کو تیزی سے اور بہت سے لوگوں تک پہنچانے میں مدد کی ہے، چاہے زبان یا علاقہ کچھ بھی ہو۔ یہ ان کے لیے سستا اور محفوظ طریقہ ہے کیونکہ اسے ٹریک کرنا مشکل ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کی حقیقی کارروائیاں کمزور ہوں تب بھی وہ آن لائن محاذ پر اپنے پیغامات پھیلا سکتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد دیگر لوگوں کو اپنے پروپیگنڈے سے ترغیب دینا اور اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو بحال کرنا ہے۔

گیمنگ ایپس سے خفیہ چیٹ رومز تک

پاکستانی سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی جہادیوں نے تیزی سے آن لائن گیمنگ ایپلی کیشنز کو محفوظ مواصلات کے ذرائع میں تبدیل کیا ہے جس کا مقصد ٹریک ہونے سے بچنا ہے۔

ایک سینئر پاکستانی سیکیورٹی اہلکار جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہم سے بات کی کیونکہ وہ میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں تھے، کہا کہ ’پب جی کے بعد اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ دہشت گرد اب لوڈو اسٹار کو مواصلات کے لیے استعمال کر رہے ہیں‘۔

’عسکریت پسند خاص طور پر بین الاقوامی گروہ، ملک کے اندرونی گروہوں کے مقابلے میں زیادہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں، تاہم یہ بین الاقوامی گروپ اکثر تربیت دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ اپنی تکنیکی مہارت مقامی گروپس کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ ہمیں مختلف مسائل کا سامنا ہے اور ہم اس سے روزانہ کی بنیاد پر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہمیں ان سے حقیقی و مجازی دونوں دنیاؤں میں لڑنا پڑ رہا ہے‘۔

داعش خراسان ایک اہم مثال ہے جس نے حالیہ برسوں میں نمایاں ناکامیوں کا سامنا کرنے کے باوجود بھرتی ہونے والوں کو راغب کرنے اور اس طرح عالمی سطح پر سب سے زیادہ خوفناک عسکریت پسند تنظیم کے طور پر اپنا مؤقف برقرار رکھنے کے لیے ایک شدید پروپیگنڈا مہم جاری رکھی ہے۔

اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی تازہ ترین رپورٹ جو رکن ممالک کی انٹیلی جنس معلومات پر مبنی ہے، نے پروپیگنڈا اور بھرتی کے مقاصد کے لیے اے آئی ٹولز اور مختلف مواصلاتی پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بارے میں سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے جس سے دہشت گرد گروہوں کو ریاستی حکام کی گرفت سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ’القاعدہ اور آئی ایس آئی ایل (لیونٹ میں عسکریت پسند اسلامک اسٹیٹ) دونوں نے مختلف مواصلاتی پلیٹ فارمز کے ساتھ تشدد کو بڑھاوا دینے اور اپنی حکمرانی کے تحت ایک مثالی زندگی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنا جاری رکھا ہے۔ آئی ایس آئی ایل نے بھرتی کے لیے ٹک ٹاک کی رسائی اور الگورتھم کی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔

’القاعدہ نے فائدہ اٹھانے کی کوشش جاری رکھی اور اس نے گیمنگ پلیٹ فارمز کو ممکنہ مواصلات کے پلیٹ فارم میں تبدیل کردیا ہے۔ انکرپٹڈ ایپس (جیسے ٹیلی گرام، ایلیمنٹ، ڈسکارڈ، تھریما، یا زنگی) کو ہدایت دی گئی ہیں کہ ٹاسکنگ کے لیے (یہ) گروپ بھی اے آئی کے ساتھ تجربہ کرتے ہیں اور وہ ایسا زیادہ تر بھرتی کے لیے کرتے ہیں اور پروپیگنڈے کو بڑھانے کے لیے بھی ان کا استعمال جاری ہے‘۔

القاعدہ اپنے پروپیگنڈا کو شیئر کرنے کے لیے جدید آلات کا استعمال کرتی ہے اور یہ طریقے ٹی ٹی پی جیسے گروپوں تک پھیل چکے ہیں۔ القاعدہ کو افغان اور پاکستانی طالبان دونوں کے لیے پروپیگنڈا کی حکمت عملیوں میں مرکزی خالق کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

داعش خراسان، القاعدہ اور ان کے مقامی جہادی شراکت داروں کا خیال ہے کہ پروپیگنڈا پھیلانا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ ان کی اصل کارروائیاں اور آپریشنز اہم ہیں۔

وہ جنگ جو پاکستان تنہا نہیں لڑ سکتا

حالیہ مہینوں میں عسکریت پسند گروپ متعدد محاذوں پر قانون نافذ کرنے والے حکام سے بہتر رہے ہیں۔ وہ شاطر انداز میں پروپیگنڈا کرتے ہیں، پیسہ کمانے کے نئے طریقے تلاش کرتے ہیں اور اکثر خیبر پختونخوا و بلوچستان میں اپنی سرگرمیوں کی حکمت عملیوں کو تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت انہیں روکنے کے لیے اب بھی روایتی طریقے استعمال کر رہی ہے۔

اپنے پیغامات کو آن لائن پھیلانے کے ساتھ ساتھ، ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند گروپس کے لیے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مقامی لوگوں تک پہنچنا آسان ہو چکا ہے جبکہ وہیں دوسری جانب حکومتی اہلکار ان کمیونٹیز تک کم جسمانی رسائی رکھتے ہیں۔

ایسے مقامات پر جہاں بہت سے عسکریت پسند موجود ہیں، سرکاری اہلکار اکثر اپنے دفاتر یا عمارتوں تک محدود ہیں جبکہ مقامی لوگ شدت پسندوں سے تواتر سے ملتے رہتے ہیں جوکہ ریاستی نمائندوں اور مقامی افراد کے درمیان ایک خلیج پیدا کر رہا ہے۔ یہ خیلج عسکریت پسندوں کو اپنی موجودگی اور نظریاتی تبلیغ کی تقویت دیتا ہے اور انہیں فوائد پہنچاتا ہے۔

عسکریت پسندی کے لاحق خطرے کو کوئی ایک ملک تنہا شکست نہیں دے سکتا۔ اس کی کثیر جہتی نوعیت متعدد اقوام پر مشتمل ایک باہمی تعاون کے نقطہ نظر کا مطالبہ کرتی ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی تنہا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تو ایسے میں کم وسائل والے پاکستان سے تنہا ان مسائل سے نمٹنے کی توقع رکھنا غیر حقیقی ہے۔

پراکسی جنگوں کا بڑھتا ہوا استعمال خطے میں ایک معمول بن چکا ہے جہاں حریف ریاستوں سے براہ راست تصادم میں جائے بغیر عسکریت پسندوں کو حریف کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک خطرناک بھنور کی صورت میں اختیار کرچکا ہے کیونکہ اس رجحان میں ہدف ریاست جوابی کارروائی بھی ضرور کرتی ہے جو کہ مزید عدم استحکام کا باعث بنتا ہے اور نادانستہ طور پر انتہا پسندوں کے خطرے کو مزید تقویت دیتا ہے۔

اگر پاکستان کو عسکریت پسندی کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنا ہے تو اسے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد بنانے کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں کے پروپیگنڈے اور ڈیجیٹل جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید بین الاقوامی نقطہ نظر کی شمولیت کے لیے مؤثر طریقے سے کام کرنا چاہیے۔

عسکریت پسند اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے میں پہلے سے زیادہ ماہر ہوچکے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ریاست بھی ان سے جدید مہارتوں کے ذریعے نمٹے۔


ہیڈر: تصویر کینوا اے آئی کی مدد سے بنائی گئی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

احسان اللہ ٹیپو محسود
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔