بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں پاکستان اچانک اتنا اہم کیوں ہوگیا ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کے چرچے آئندہ چند ہفتوں بلکہ شاید مہینوں تک ہوتے رہیں گے۔
امریکی صدر کے پاکستان کی سویلین و عسکری قیادت سے بار بار رابطے کو واشنگٹن کی وسیع تر پالیسی میں تبدیلی کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس میں مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور سب سے اہم بھارت اور چین کے حوالے سے امریکا کی حکمت عملی ہے۔ اپنے طور پر پاکستان نے اس بدلتے ہوئے آرڈر میں اپنے کردار کو تسلیم کرلیا ہے، البتہ بےیقینی کی صورت حال برقرار ہے کہ یہ نیا ورلڈ آرڈر حقیقتاً کیسا ہوگا۔
مبصرین کی جانب سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن پاکستان کے اُبھرتے ہوئے کردار کی خصوصیات فی الحال واضح نہیں۔ تاہم جو ثابت شدہ ہے وہ واشنگٹن کی بدلتی پالیسی کے مطابق اپنی پوزیشن کو ترتیب دینے میں پاکستان کی پُھرتی ہے۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ شدید کشیدگی کا سامنا کیا، افغانستان میں عدم استحکام جاری رہا، یوکرین میں جنگ جبکہ چین کے عالمی اثر و رسوخ میں وسعت سمیت تمام عوامل نے دنیا کے اسٹریٹجک منظرنامے کو نئی شکل دی ہے۔ ان رکاوٹوں کے درمیان پاکستان نے خود کو متعلقہ رکھنے کی ترکیب ڈھونڈ لی ہے۔
اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں پاکستان ایک بار پھر اچانک سے اہم ہوگیا ہے اور وہ بھی اس لیے نہیں کیونکہ وہ کسی ملک پر منحصر ہے یا یہ روایتی سیکیورٹی صلاحیتوں میں بہترین قوت ہے اور وہ یقینی طور پر اس لیے اہم نہیں بنا کیونکہ وہ فعال جمہوریت رکھتا ہے بلکہ وہ اس لیے اہم ہوچکا ہے کیونکہ وہ ایک لچکدار ریاست ہے جو خود کو ڈھالنا جانتی ہے۔
اپنی لڑکھراتی معیشت، کمزور اداروں اور اپنی پروا کرنے والی اشرافیہ کے باوجود پاکستان اب بھی عالمی اور علاقائی سیاست کو حیرت انگیز طور پر اچھی طرح سنبھالنا جانتا ہے جبکہ یہ حریف ممالک کے درمیان ایک بے یقینی توازن برقرار رکھنے کا اہل ہے۔
اب اس کی بنیادی طاقت کسی بھی ایسی قوم کے ساتھ کام کرنے کی تیاری ہے جو اس کی قدر کو پرکھنا جانتی ہے خاص طور پر دفاع، معدنیات اور قدرتی وسائل میں کیونکہ اب پاکستان سودے بازی میں اپنے فائدے کے لیے انہیں عناصر کو استعمال کرے گا۔ پاکستان اپنی پوزیشن کو تبدیل کرنے اور حالات سے موافق ہونے کے قابل ہونے کی وجہ سے ایک طویل عرصے تک مشکل وقت سے بچا رہا ہے۔
اس توازن کو سنبھالنا ایک درمیانے درجے کی ریاست کے لیے بالکل آسان نہ تھا بالخصوص وہ جس کے دو انتہائی طاقتور ہمسایے ہیں۔ ایک وہ ہمسایہ جو کٹر مخالف ہے جبکہ دوسرا ہمسایہ شراکت دار پاکستان کی خطے میں دیگر صف بندیوں کے حوالے سے حساس ہے۔
پاکستان کو مسابقتی نظریاتی اور سیاسی ترجیحات رکھنے والی دو دیگر ریاستوں کے مقابلے میں بھی اپنا توازن برقرار رکھنا ہے جو پاکستان کی مذہبی برادریوں میں اپنے اثر و رسوخ سے تقویت پاتی ہیں جہاں انہیں دوست یا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے ان تنازعات کے ساتھ رہنے اور انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے وزیر دفاع نے اس نقطہ نظر کو بیان کیا ہے اور پاک-امریکا تعلقات کے نئے خوشگوار دور کا سہرا ’ہائبرڈ‘ نظام کو دیا ہے۔ یہ اصطلاح جو اکثر سویلین اور فوجی رہنماؤں دونوں کی جانب سے اپنے ملکی انتظامات کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی، اب خارجہ پالیسی میں بھی اس کی بازگشت ہے۔
پاکستان درحقیقت ایک ایسی ریاست بن چکا ہے جس نے اپنی حدود متعین کرلی ہیں۔ وہ مسابقتی طاقتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرتا ہے جبکہ کسی ایک ملک پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنے سے گریز کرتا ہے اور اپنے مستقبل کے اسٹریٹجک آپشنز کو بھی کھلا رکھتا ہے۔
تاہم ایسی دیگر ریاستوں کے برعکس پاکستان کو ایک ہائبرڈ سیکیورٹی کا ڈھانچہ چلا رہا ہے جہاں فوج اور سیکیورٹی کی ضروریات سیاست یا گڈ گورننس سے زیادہ اہم ہوتی ہے جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیز کے پاس بہت زیادہ طاقت ہے اور خارجہ پالیسی طویل المدتی وژن سے زیادہ خطرے اور بقا کی حکمت عملی پر تشکیل پاتی ہے۔
اس قسم کے سیٹ اپ کے ساتھ پاکستان جیسا ملک اپنے فوائد کے لیے دشمن ممالک کے ساتھ بھی کام کرسکتا ہے۔ ترکیہ، مصر، قطر اور آذربائیجان مماثل خصوصیات رکھتے ہیں یعنی وہ طاقتوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہیں جو اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں۔
لیکن پھر بھی پاکستان کا معاملہ منفرد ہے کیونکہ اس کی ہائبرڈ حکومت نہ صرف اس قسم کی لچک کی اجازت دیتی ہے بلکہ اسے طاقت کے طور پر بھی دیکھتی ہے۔ اسلام آباد کبھی بھی بھارت سے بات چیت کا آغاز کرنے سے نہیں ہچکچایا ہے حالانکہ اس بات چیت کا محرک طویل مدتی ریاستی حکمت عملی کے بجائے اشرافیہ کی بقا اور استحکام رہا ہے۔
تضادات میں راستہ نکالنے، دباؤ کی صورتحال میں حکمتِ عملی کو تبدیل کرنے اور مخالفین کے ساتھ بھی معاملات طے کرنے کی اہلیت وہ عوامل ہیں جنہوں نے واشنگٹن کو ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ شراکت داری کے نئے مرحلے میں داخل ہونے پر آمادہ کیا ہے، اگرچہ انسدادِ دہشت گردی کے تعاون اور افغان جنگ کی تلخ یادیں تاحال باقی ہیں۔
امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری دونوں فریقین کی عملی ضروریات پر مبنی ہے۔ امریکا کے لیے یہ خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ، انسداد دہشتگردی، تجارت اور معدنیات میں سرمایہ کاری کے بارے میں ہے جبکہ پاکستان کے لیے یہ معاشی مدد حاصل کرنے کے بارے میں ہے، اسے اسٹریٹجک اعتبار سے اہم سمجھنے اور یہ ثابت کرنے کے بارے میں ہے کہ یہ اب بھی عالمی سطح پر اہمیت رکھتا ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے فوجی رہنماؤں اور وزیر اعظم نواز شریف دونوں کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا پاکستان میں فوجی اور سویلین رہنماؤں کے درمیان طاقت کا اشتراک یعنی ہائبرڈ ماڈل کا معترف ہے۔
پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے لیے امریکا کے ساتھ اس شراکت داری کو دوبارہ شروع کرنا کسی واضح طویل مدتی منصوبے سے متعلق نہیں۔ یہ خطے میں امریکا کے مفاد کو اپنی سیاسی طاقت اور دولت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں زیادہ ہے جبکہ چین، خلیجی ممالک اور یہاں تک کہ اپنے مفادات کے تحت ضرورت پڑنے پر وہ بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھ سکتے ہیں۔
تو مغربی اور جنوبی ایشیا میں امریکا کے مفادات کیا ہیں؟ مبصرین نے بہت سے مفادات کا ذکر کیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں واشنگٹن ابراہم معاہدے کو وسعت دینا چاہتا ہے اور اس بار وہ سعودی عرب کو فریق بنانا چاہتا ہے جبکہ ممکنہ طور پر وہ پاکستان کو بھی اس فہرست میں شامل کرنا چاہے گا۔ یہ ایران میں حکومت پر تبدیلی کے لیے دباؤ ڈالنے کے منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے۔
امریکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطین کے لیے نئے امن منصوبے کی حمایت بھی چاہتا ہے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ٹرمپ اور مسلم رہنماؤں سے ملاقات کے بعد اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔
جنوبی ایشیا میں امریکا بظاہر وقتی طور پر بھارت کو قابو میں رکھنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، جس کے لیے وہ پاکستان کے ساتھ افغانستان میں مشترکہ مقاصد پر شراکت داری کر رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ واشنگٹن اسلام آباد کو بیجنگ کے اثر و رسوخ سے واپس کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے، ایسا اقدام جو چین کو بے چین کر سکتا ہے کیونکہ بیجنگ طویل عرصے سے پاکستان کو اپنا سب سے قابلِ بھروسہ اتحادی سمجھتا آیا ہے۔
جغرافیائی اقتصادیات پر مکمل توجہ مرکوز کرنا، علاقائی مقاصد کے جال کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ امریکا اور چین پہلے ہی معدنیات اور توانائی کے وسائل کو کنٹرول کرنے کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں اور پاکستان کے لیے یہ دشمنی دونوں فریقین کے ساتھ تعاون کا پُرکشش موقع ہے۔
پھر بھی اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان، امریکا کی اپنے کون سے مقاصد کے حصول میں حقیقی طور پر مدد کر سکتا ہے اور کب تک؟ اور اگر امریکا کو وہ ملتا ہے جو وہ چاہتا ہے تو اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کس قسم کے تعلقات باقی رہ جائیں گے؟
کیا پاکستان واقعی اقتصادیات اور دفاع میں امریکا کے ساتھ مضبوط اور بامعنی تعلقات برقرار رکھ سکتا ہے جو راولپنڈی میں اس کی فوجی قیادت طویل عرصے سے شدت سے چاہتی ہے تو اس کی قیمت کیا ہوگی؟ یہ وہ بڑے اور اہم سوالات ہیں جو آنے والے ہفتوں میں سامنے آتے رہیں گے خاص طور پر جب امریکا-پاکستان شراکت داری آزمائش کے مرحلے سے گزرے گی۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
