دنیا

چین کے ساتھ آبی خدشات کے مقابلے کیلئے بھارت کا میگا ڈیم بنانے کا منصوبہ

مجوزہ نیا ڈھانچہ تبت میں تعمیر کیے جانے والے ممکنہ ریکارڈ توڑ ڈیم کا مقابلہ کر سکتا ہے، یہ ڈیم ’ہتھیار کے طور پر استعمال کے لیے چھوڑے گئے پانی‘ کو روکنے میں مدد دے گا، بھارت

دھندلے پہاڑوں سے گھِرے فٹبال میدان میں جب قبائلی لوگ مجوزہ میگا ڈیم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، تو فضا جوشیلی تقاریر سے گونج اٹھی، یہ ڈیم اپنے حریف چین کے ساتھ ہمالیائی پانی پر جاری مقابلے میں بھارت کا تازہ ترین قدم ہے۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کا کہنا ہے کہ مجوزہ نیا ڈھانچہ تبت میں چین کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے ممکنہ ریکارڈ توڑ ڈیم کا مقابلہ کر سکتا ہے، کیونکہ یہ پانی ذخیرہ کرے گا اور ’ہتھیار کے طور پر استعمال کے لیے چھوڑے گئے پانی‘ کو روکنے میں مدد دے گا۔

لیکن بھارت کے سب سے بڑے ڈیم کے لیے مجوزہ مقامات میں سے ایک پر رہنے والوں کے لیے یہ منصوبہ ’موت کا پروانہ‘ محسوس ہوتا ہے۔

ریو گاؤں کے ایک رہائشی تاپیر جموہ نے بغاوت کے اشارے کے طور پر زہریلے تیر سے بھری ہوئی کمان اٹھائی اور کہا کہ ہم آخری وقت تک لڑیں گے، ہم ڈیم کو تعمیر نہیں ہونے دیں گے۔

جموہ کی سرزمینیں، آدی قبیلے کی آبادی ہیں، جو بھارت کے شمال مشرقی کونے میں واقع ہیں اور بلند برف پوش پہاڑوں کے پار تبت اور میانمار سے جدا ہیں۔

بیجنگ، اروناچل پردیش پر دعویٰ کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا منصوبہ نیچے کی طرف بہاؤ پر کوئی ’منفی اثر‘ نہیں ڈالے گا۔

بھارت کے مجوزہ خاکوں میں اروناچل پردیش میں ایک بڑے ذخیرہ آب کے قیام کا ذکر ہے، جو اولمپک سائز کے 40 لاکھ سوئمنگ پولز کے برابر ہو گا، اور اس کے پیچھے 280 میٹر (918 فٹ) بلند ڈیم ہو گا۔

یہ منصوبہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب چین ریو کے بالائی حصے میں دریا پر (جسے بھارت میں سیانگ اور تبت میں یارلُنگ سانگپو کہا جاتا ہے) 167 ارب ڈالر کے یاشیا منصوبے کو آگے بڑھا رہا ہے۔

چین کا منصوبہ 5 ہائیڈرو پاور اسٹیشنز پر مشتمل ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے تھری گورجز ڈیم کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں، اگرچہ دیگر تفصیلات ابھی واضح نہیں ہیں۔

بیجنگ بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اروناچل پردیش کو اپنا حصہ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے منصوبے کا نیچے کی طرف کوئی منفی اثر نہیں ہو گا۔

چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ چین نے کبھی ایسا کیا ہے نہ کبھی کرے گا کہ سرحد پار دریاؤں پر ہائیڈرو پاور منصوبوں کو نیچے کے ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچانے یا انہیں دباؤ میں لانے کے لیے استعمال کرے۔

چینی رپورٹس ایک سرنگی انحراف منصوبے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جب کہ بھارت ریو میں اپنے میگا ڈیم پر غور کر رہا ہے، مقامی افراد، جیسے کہ 69 سالہ تاپیر جموہ کہتے ہیں کہ سیانگ کو روکنے سے ان کی ثقافت اور شناخت ختم ہو جائے گی۔

اگرچہ نئی دہلی اور بیجنگ کے تعلقات میں کچھ نرمی آئی ہے، لیکن دونوں کثیر آبادی والے ممالک کے درمیان کئی متنازع سرحدی علاقے ہیں، جہاں دسیوں ہزار فوجی تعینات ہیں اور بھارت نے اپنے خدشات کو چھپایا نہیں ہے۔

یہ دریا طاقتور برہم پُتر کا معاون ہے اور بھارتی حکام کو خدشہ ہے کہ چین اس کے ڈیم کو ایک کنٹرول ٹَیپ کے طور پر یا تو مہلک قحط پیدا کرنے کے لیے یا پھر نیچے کی طرف ’پانی کا بم‘ چھوڑنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

چین اس کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یَاشیا ہائیڈرو پاور منصوبے کو ’آبی بم‘ قرار دینا بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہے۔

اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو کا کہنا ہے کہ چین کے ڈیم کے خلاف حفاظتی اقدام ’قومی سلامتی کی ضرورت‘ ہے، اور بھارت کے ڈیم کو وہ پانی کے بہاؤ کو قابو کرنے کے لیے ایک حفاظتی والو کے طور پر دیکھتے ہیں۔

نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور سے وابستہ ہمالیائی ماحولیاتی ماہر مہاراج کے۔پنڈت کہتے ہیں کہ چین کی جارحانہ آبی وسائل کی ترقی کی پالیسی نیچے کے ممالک کے لیے اسے نظرانداز کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی۔

بھارت کا ڈیم 11 ہزار 600 میگاواٹ تک بجلی پیدا کر سکتا ہے، جو اسے سب سے طاقتور بنا دے گا اور کوئلے پر انحصار کم کرے گا۔