دنیا

افغانستان میں 48 گھنٹے کی بندش کے بعد موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ بحال

بدھ کی رات انٹرنیٹ بحال ہونے کے بعد کابل میں سیکڑوں افغان سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی کا اظہار کیا۔

افغانستان میں 48 گھنٹے کی بندش کے بعد موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ بحال کردیا گیا، شہریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پیر کی شب اچانک موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ بند ہونے سے ملک میں افراتفری پھیل گئی تھی، کاروباری سرگرمیاں منجمد ہوگئی تھیں اور افغان عوام باقی دنیا سے کٹ گئےتھے۔

افغانستان میں وسیع پیمانے پر یہ بلیک آؤٹ اس وقت آیا تھا، جب حکومت نے ’بے راہ روی‘ کو روکنے کے لیے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے حکم پر کچھ صوبوں میں تیز رفتار انٹرنیٹ کنیکشن بند کرنا شروع کیے تھے۔

اے ایف پی کے صحافیوں نے آج بتایا کہ موبائل فون سگنلز اور وائی فائی کی سروس ملک کے مختلف صوبوں میں بحال ہوگئی ہے، جن میں جنوب میں قندھار، مشرق میں خوست، وسطی غزنی اور مغرب میں ہرات شامل ہیں۔

خیال رہے کہ طالبان حکومت نے ابھی تک ٹیلی کمیونی کیشن کی بندش پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

بدھ کی رات انٹرنیٹ بحال ہونے کے بعد کابل میں سیکڑوں افغان سڑکوں پر نکل آئے، 26 سالہ ڈلیوری ڈرائیور سہراب احمدی نے کہا کہ’ یہ عیدالاضحی جیسا ہے؛ جیسے نماز کے لیے تیاری کرنا، ہم دل کی گہرائیوں سے بہت خوش ہیں۔’

کئی دنوں کی کشیدگی کے بعد افغان عوام نے مٹھائیاں اور غبارے خرید کر جشن منایا، ڈرائیور ہارن بجاتے رہے اور لوگ فون کان سے لگائے خوشی مناتے رہے۔

ریسٹورنٹ مینیجر محمد تواب فاروقی نے اے ایف پی کو بتایا کہ’ شہر دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔’

کاروبار، ایئرپورٹ، بینک بند

یہ پہلا موقع ہے جب طالبان حکومت نے 2021 میں اقتدار سنبھالنے اور سخت اسلامی قوانین نافذ کرنے کے بعد ملک میں مواصلاتی سہولیات بند کی ہیں۔

نیٹ بلاکس، جو سائبر سیکیورٹی اور انٹرنیٹ گورننس پر نظر رکھنے والی تنظیم ہے، نے کہا کہ یہ بلیک آؤٹ ’ دانستہ سروس منقطع کرنے کے مترادف لگتا ہے‘۔

نیٹ بلاکس کے مطابق انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی عام سطح کے صرف ایک فیصد تک رہ گئی تھی۔

ایک سرکاری اہلکار نے پیر کی شام بلیک آؤٹ سے چند منٹ قبل اے ایف پی کو خبردار کیا تھا کہ فائبر آپٹک نیٹ ورک کاٹ دیا جائے گا، جس سے موبائل فون سروس متاثر ہوگی۔

انٹرنیٹ بند ہونے سے کاروبار، ایئرپورٹس اور مارکیٹیں بند ہوگئی تھیں جبکہ بینک اور ڈاک خانے کام کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔

افغان عوام ملک کے اندر یا باہر ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے قابل نہ تھے اور کئی خاندانوں نے غیر یقینی صورتحال کے دوران بچوں کو اسکول بھیجنا بند کر دیا تھا۔

ہرات اور قندھار میں رہنے والے لوگ ایران اور پاکستان کے سرحدی قصبوں تک گئے تاکہ وہاں سے سگنلز حاصل کر سکیں۔

اقوام متحدہ نے منگل کو کہا تھا کہ اس شٹ ڈاؤن نے ’ افغانستان کو دنیا سے تقریباً مکمل طور پر کاٹ دیا‘ اور حکام سے رسائی بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔

گزشتہ ہفتوں میں انٹرنیٹ کنیکشن انتہائی سست یا رُک رُک کر چل رہے تھے۔

16 ستمبر کو جب شمالی صوبوں میں انٹرنیٹ سب سے پہلے بند کیا گیا، تو بلخ صوبے کے ترجمان عطا اللہ زید نے کہا تھا کہ یہ پابندی طالبان کے سربراہ کے حکم پر لگائی گئی ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ ’ یہ اقدام برائی کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا ہے، اور رابطے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے متبادل اقدامات پورے ملک میں کیے جائیں گے۔’

انہوں نے مزید کہا تھا کہ’ افغانستان میں حالیہ مطالعات سے پتا چلا ہے کہ انٹرنیٹ ایپلی کیشنز نے معاشرے کی جاری معاشی، ثقافتی اور مذہبی بنیادوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔’