دنیا

پاکستان سمیت اہم مسلم ممالک کا تحفظات کے باوجود ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی حمایت کا امکان

ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور مصر سے درخواست کی ہے کہ وہ غزہ میں سیکیورٹی زون قائم کرنے کے لیے اپنی افواج فراہم کریں، مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر تحفظات کے باوجود پاکستان سمیت کئی اہم مسلم ممالک اس کی حمایت کرنے کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں، جس سے خطے میں نئی سفارتی پیش رفت کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ میں امن کے لیے پیش کیے گئے ’اسرائیل کے حق میں‘ منصوبے پر تحفظات ہونے کے باوجود آٹھ مسلم ممالک پر مشتمل گروپ اس منصوبے کو قبول کرنے پر غور کر رہا ہے۔

قطر اور پاکستان کے حکام نے اشارہ دیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کا اعلان کردہ منصوبہ نیویارک میں طے پانے والے نکات سے کافی مختلف ہے، اگرچہ یہ بات انہوں نے سفارتی انداز میں کہی۔

تاہم، بعض ممالک بالخصوص غزہ کے ہمسایہ ممالک سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اہم رعایتیں حاصل کر لی ہیں، جیسے کہ ٹرمپ کی جانب سے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے سے انکار اور یہ امریکی یقین دہانی کہ فلسطینیوں کو غزہ میں رہنے دیا جائے گا، اس منصوبے کے تحت اسرائیل نے بھی غزہ کی پٹی پر مستقل قبضہ نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ایک سینئر مصری سیاسی ذریعے کے مطابق غزہ کی تعمیر نو مصر کے لیے ایک بڑا اقتصادی موقع ہوگی، جو ملبہ ہٹانے سے لے کر بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور شہری منصوبوں تک پھیلا ہوا ہے، اس عمل کے ذریعے براہِ راست اور بالواسطہ اربوں ڈالر مصر کی معیشت میں شامل ہوں گے، اس سے وہ خدشہ بھی ختم ہوگا کہ غزہ کے لاکھوں فلسطینیوں کو جزیرہ نما سینا میں دھکیلا جائے گا۔

مڈل ایسٹ آئی کے مطابق غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کرنا مکمل طور پر بے دخلی کے منصوبے کو ختم کردے گا، جو قاہرہ اور تل ابیب کے درمیان شدید کشیدگی کا باعث بنا ہوا تھا۔

سب سے حیران کن تبدیلیاں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تعداد اور اسرائیلی انخلا کے مرحلہ وار طریقہ کار سے متعلق تھیں، پہلے جہاں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ غزہ سے گرفتار 1 ہزار 700 مرد، خواتین اور بچوں کی رہائی طے تھی، اب صرف 250 قیدیوں کو رہا کرنے کا کہا گیا ہے۔

پہلے مسودے میں روزانہ 600 ٹرک امدادی سامان غزہ بھیجنے کی شق شامل تھی، لیکن نئے ورژن میں اس حوالے سے کوئی واضح یقین دہانی نہیں دی گئی۔

غزہ کی حکومت کے معاملے میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، اب وہاں ایک پیِس بورڈ بنایا جائے گا، جس کی قیادت ٹرمپ اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کریں گے اور اس میں کسی قسم کی بین الاقوامی مشاورت شامل نہیں ہوگی۔

فوجی تعیناتی

اسی دوران مبینہ بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف)، جسے صرف فلسطینی پولیس کو تربیت دینے کے لیے مختص کیا گیا تھا تاکہ وہ سیکیورٹی سنبھالے، اچانک وسیع اختیارات کی حامل ہوگئی، جس سے اسرائیلی کنٹرول میں اضافے کے آثار ظاہر ہوئے۔

اسرائیلی فوج کے انخلا کو غیر معینہ مدت تک پھیلا دیا گیا اور غزہ کی سرحد کے گرد ایک ’سیکیورٹی زون‘ بنانے کی تجویز نے مستقل موجودگی کا عندیہ دیا۔

یہ فورس گزشتہ ہفتے نیویارک میں ٹرمپ اور مسلم ممالک کے رہنماؤں کے درمیان 45 منٹ کی ملاقات کا مرکزی موضوع تھی۔

مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور مصر سے کہا کہ وہ اپنی افواج اس فورس کے لیے فراہم کریں۔

اعلان کے بعد تمام آٹھ ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں منصوبے کا خیر مقدم کیا اور اسے حتمی شکل دینے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

تاہم، ان مثبت بیانات کے باوجود، اندرونِ خانہ ان ممالک کو غزہ میں اپنی افواج تعینات کرنے پر شدید تحفظات ہیں۔

ایک علاقائی عہدیدار نے سوال اٹھایا کہ اس فورس کی قیادت کون کرے گا؟ مداخلت کا فیصلہ کون کرے گا اور قواعد کیا ہوں گے؟

ان کے مطابق عرب و مسلم ممالک، امریکا، اسرائیل اور فلسطینی نمائندوں کی مزید بات چیت ضروری ہے۔

ذرائع کے مطابق ترکیہ، اردن اور مصر چاہتے تھے کہ اس فورس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری حاصل ہو، لیکن امریکا اور اسرائیل نے یہ شرط مسودے سے نکال دی۔

ایک ذریعے نے کہا کہ اسرائیلی فلسطین سے متعلق کسی بھی معاملے میں اقوام متحدہ کی مداخلت نہیں چاہتے۔

ترکیہ کے ایک ذریعے نے بتایا کہ انقرہ غزہ میں افواج بھیجنے پر غور کر رہا ہے، تاہم یہ فیصلہ فورس کے ڈھانچے اور قیادت پر منحصر ہوگا، لیکن اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کسی بھی ترک کردار کی مخالفت کریں گے، جبکہ حماس اس پر زور دے سکتا ہے۔

حماس پر دباؤ

منصوبے کے بعض حصوں پر عدم اطمینان کے باوجود ترکیہ، قطر اور مصر کے حکام نے منگل کو دوحہ میں ملاقات کی تاکہ حماس کو ٹرمپ کی تجویز پر مثبت ردعمل دینے پر آمادہ کیا جائے۔

ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے کہا کہ امریکا کا کام اسرائیل کو راضی کرنا ہے، جب کہ ترکیہ اور دیگر علاقائی ممالک فلسطینیوں کو قائل کرنے پر توجہ دیں گے۔

مڈل ایسٹ آئی کے مطابق حماس کے رہنماؤں کو منصوبے کے نکات سے فوراً آگاہ کر دیا گیا اور زور دیا گیا کہ یہ جنگ ختم کرنے اور فلسطینی عوام کی مشکلات کم کرنے کا آخری موقع ہے۔

تاہم، بدھ کو ایک فلسطینی ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ حماس کے رہنما اب بھی منصوبے کی بعض شقوں، جیسے کہ اسلحہ چھوڑنے اور تنظیمی ارکان کے اخراج پر نظرثانی چاہتے ہیں۔

دوحہ میں ہونے والی ملاقات میں حماس نے کہا کہ انہیں جواب دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ دو سے تین دن درکار ہیں۔

ذرائع کے مطابق حماس اسلحہ کے حوالے سے شقوں اور قیادت کے ارکان کے اخراج کو ترمیم کرنا چاہتا ہے، اس کے رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کے مکمل انخلا کے لیے بین الاقوامی ضمانتیں اور یہ یقین دہانی درکار ہیں کہ اندرون یا بیرونِ غزہ کوئی ٹارگٹڈ حملے نہیں ہوں گے۔