امریکا: شٹ ڈاؤن سے اہم حکومتی سرگرمیاں معطل، ڈیموکریٹک ریاستوں کے 26 ارب ڈالر منجمد
امریکا میں شَٹ ڈاؤن سے فضائی سفر متاثر اور سائنسی تحقیق معطل ہوگئی، اہم محکمے بند ہونے سے امریکی فوجیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی رک گئی، 7 لاکھ 50 ہزار وفاقی ملازمین کو تنخواہ کے بغیر جبری رخصت پر بھیج دیا گیا، جب کہ امریکی محکموں کے شَٹ ڈاؤن ہونے سے روزانہ تقریباً 40 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوگا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ڈیموکریٹک جھکاؤ رکھنے والی ریاستوں کے لیے 26 ارب ڈالر منجمد کر دیے۔
اسی دوران نائب صدر جے ڈی وینس نے خبردار کیا کہ اگر شٹ ڈاؤن چند دنوں سے زیادہ طویل ہوا تو انتظامیہ وفاقی ملازمین کو برخاست کرنے کی مہم کو بڑھا سکتی ہے۔
یہ اقدامات واضح کرتے ہیں کہ ٹرمپ اپنے اس وعدے کو پورا کرنے جا رہے ہیں کہ وہ شٹ ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی مخالفین کو سزا دیں گے، اور 7 کھرب ڈالر کے وفاقی بجٹ پر اپنا کنٹرول بڑھائیں گے، حالاں کہ امریکی آئین کے تحت یہ کانگریس کا اختیار ہے۔
انہوں نے بدھ کی رات ’ٹروتھ سوشَل‘ پر لکھا کہ ڈیموکریٹ کی جانب سے جبری بندش کے اس موقع کو ریپبلکنز فراڈ اور بدعنوانی روکنے کے لیے ضرور استعمال کریں، اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔
یہ 1981 کے بعد سے 15واں شٹ ڈاؤن ہے، جس نے سائنسی تحقیق، مالی نگرانی، ماحولیاتی صفائی کے اقدامات اور دیگر کئی سرگرمیوں کو معطل کر دیا ہے۔
ویٹرنز افیئرز کے محکمے نے کہا کہ وہ قومی قبرستانوں میں تدفین کا عمل جاری رکھے گا، لیکن کتبے نصب نہیں کرے گا اور نہ ہی گھاس کاٹے گا۔
وینس نے وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں کہا کہ اگر شٹ ڈاؤن چند دنوں سے زیادہ طویل ہوا تو انتظامیہ کو مزید برطرفیوں پر مجبور ہونا پڑے گا، جو دسمبر تک 3 لاکھ کی تعداد میں پہنچ جائیں گی، ماضی کے شٹ ڈاؤنز میں مستقل برطرفیاں نہیں ہوئیں۔
امریکی پیٹنٹ اور ٹریڈمارک آفس نے ایک داخلی خط کے مطابق کہا کہ وہ اپنے 14 ہزار ملازمین میں سے 1 فیصد کو فارغ کرے گا۔
شٹ ڈاؤن ’بلیک میل‘ ہے
ایوانِ نمائندگان کے ڈیموکریٹک لیڈر حکیم جیفریز نے کہا کہ نیویارک میں سب وے اور بندرگاہ کے منصوبوں کے لیے فنڈز روکنے سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔
نیو یارک سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے ڈیموکریٹک لیڈر چَک شومر نے کہا کہ ٹرمپ عام امریکیوں کو ذاتی مقاصد کے لیے نشانہ بنا رہے ہیں۔
شومر نے کہا کہ وہ امریکی عوام کو مہرے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور ملک پر دباؤ ڈال کر بلیک میل کر رہے ہیں۔
ریپبلکن سینیٹر تھام ٹِلِس نے کہا کہ انہیں تشویش ہے کہ نیویارک کے لیے انفرااسٹرکچر فنڈز روکنے سے کانگریس کے لیے شٹ ڈاؤن ختم کرنا مزید مشکل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اس معاملے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس سے ماحول مزید زہریلا ہو سکتا ہے، امید ہے کہ وہ قائد کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ حالات مزید نہ بگڑیں۔
ریپبلکن سینیٹ لیڈر جان تھون نے اس خیال کو مسترد کیا کہ فنڈز منجمد کرنا یرغمال بنانے کے مترادف ہے، حکومت کو ’کھولنے‘ کے لیے ووٹ دیں اور یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا، معاملہ سیدھا سادہ ہے۔
جیفریز نے کہا کہ پیر کے روز صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد سے ان کا وائٹ ہاؤس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، انہوں نے سی این این کو بتایا کہ ہم نے پیر کے اجلاس کے بعد وائٹ ہاؤس سے کچھ نہیں سنا، صاف ظاہر ہے کہ ان کا مقصد حکومت کو بند کرنا تھا۔
ایک ہی دن، ایک ہی ووٹ، ایک ہی نتیجہ
سینیٹ نے دوبارہ حکومت کو چلانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا، کیوں کہ ریپبلکن کی طرف سے پیش کردہ 21 نومبر تک عارضی فنڈنگ بل اور ڈیموکریٹس کی جانب سے صحت کی سہولتوں میں اضافے کے ساتھ فنڈنگ کی تجویز دونوں ناکام ہو گئی تھیں۔
ٹرمپ کے ریپبلکن سینیٹ میں 47-53 کی اکثریت رکھتے ہیں، لیکن انہیں اخراجات کے بل منظور کرنے کے لیے شومر کے کم از کم 7 ڈیموکریٹس کی ضرورت ہے۔
ایک دو جماعتی گروہ نے ووٹنگ کے دوران راستہ نکالنے کی کوشش کی۔
واشنگٹن کے قریب ہزاروں وفاقی ملازمین کی نمائندگی کرنے والے ڈیموکریٹک سینیٹر ٹِم کیننے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جو معاہدہ ہو، وہ پکا ہو، لیکن میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہر بات پر ابھی اتفاق ہونا ضروری ہے، کیوں کہ یہ پیچیدہ ہو سکتا ہے۔
ڈیموکریٹس یہ بھی ضمانت چاہتے ہیں کہ ٹرمپ ان فنڈنگ بلز کو نظر انداز نہیں کریں گے، جن پر وہ دستخط کر دیں گے، جیسا کہ وہ بارہا کر چکے ہیں۔
دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہیں تاکہ 2026 کے وسط مدتی انتخابات میں برتری حاصل کر سکیں۔
ڈیموکریٹس نے کہا کہ ریپبلکن ذمہ دار ہیں کیوں کہ ان کے پاس واشنگٹن میں طاقت ہے۔
ریپبلکنز نے کہا کہ ڈیموکریٹس ٹرمپ کی مخالفت میں تعصب برت رہے ہیں، حالاں کہ وہ ماضی میں فنڈنگ بلز کی حمایت کرتے رہے ہیں، انہوں نے یہ جھوٹا دعویٰ بھی دہرایا کہ ڈیموکریٹس کی تجویز غیر قانونی تارکینِ وطن کو صحت کی سہولتیں دے گی۔
غیر جانبدار کانگریشنل بجٹ آفس کے مطابق، ڈیموکریٹس کا منصوبہ صرف ان تارکین وطن، جیسے کہ پناہ گزین یا ورک ویزا رکھنے والوں کی کوریج بحال کرے گا، جو قانونی طور پر ملک میں موجود ہیں۔
کئی سرکاری ایجنسیوں نے اپنی ویب سائٹس پر یہ نوٹس بھی جاری کیا کہ شٹ ڈاؤن کا ذمہ دار ’ریڈیکل لیفٹ‘ ہے، جو ممکنہ طور پر ہَیچ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، جو سرکاری خدمات کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
امریکا میں سب سے طویل حکومتی شٹ ڈاؤن 19-2018 میں ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں 35 دن تک جاری رہا تھا، جو اس وقت ختم ہوا تھا، جب ایئر ٹریفک کنٹرولرز کے بیمار ہونے کی کالز کی وجہ سے پروازوں میں تاخیر شروع ہوئی تھی۔