دنیا

یونینز، آجروں اور مذہبی گروپوں کے اتحاد کا ٹرمپ کی ایچ ون-بی ویزا فیس کیخلاف مقدمہ

فوری ریلیف نہ ملا تو اسپتال طبی عملے سے خالی، گرجا گھر پادریوں، کلاس رومز اساتذہ کو کھو دیں گے، اور صنعتیں کلیدی موجدوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی، اتحاد کا مؤقف

یونینز، آجروں اور مذہبی گروپوں کے ایک اتحاد نے ایک مقدمہ دائر کیا ہے تاکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اُس کوشش کو روک سکیں، جس کے تحت وہ ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کے لیے نئی ایچ ون-بی ویزا درخواستوں پر ایک لاکھ ڈالر کی فیس عائد کرنا چاہتے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق یہ مقدمہ سان فرانسسکو کی وفاقی عدالت میں دائر کیا گیا ہے، اور اُس صدارتی فرمان کے خلاف پہلا مقدمہ ہے، جو ٹرمپ نے دو ہفتے قبل جاری کیا تھا، ریپبلکن صدر ٹرمپ نے یہ اقدام امریکا میں امیگریشن کو مزید محدود کرنے کی پالیسی کے تحت کیا تھا۔

اتحاد نے مؤقف اختیار کیا کہ نئی فیس غیر قانونی ہے اور امریکا میں جدت اور معاشی ترقی کے ایک اہم ذریعے کو نقصان پہنچائے گی۔

اتحاد کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر فوری ریلیف نہ دیا گیا، تو اسپتال طبی عملے کو کھو دیں گے، گرجا گھر اپنے پادریوں سے محروم ہو جائیں گے، کلاس روم اساتذہ کھو دیں گے، اور ملک بھر کی صنعتیں اپنے کلیدی موجدوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔

مزید کہا گیا کہ مقدمے میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس حکم کو فوری طور پر معطل کرے اور اور کارکنوں کے لیے استحکام بحال کرے۔

مدعیوں میں یونائیٹڈ آٹو ورکرز یونین، امریکن ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی پروفیسرز، ایک نرس بھرتی ایجنسی اور متعدد مذہبی تنظیمیں شامل ہیں، انہوں نے دلیل دی کہ صدر کو کچھ غیر ملکی شہریوں کے داخلے کو محدود کرنے کا اختیار تو ہے، لیکن وہ اُس قانون کو منسوخ یا تبدیل نہیں کر سکتے جس کے تحت ویزا پروگرام بنایا گیا تھا۔

مدعیوں نے یہ بھی کہا کہ صدر کے پاس اس پروگرام کے قانونی ڈھانچے میں تبدیلی کا اختیار نہیں، اور وہ یکطرفہ طور پر کوئی فیس یا ٹیکس عائد نہیں کر سکتے، کیوں کہ امریکی آئین کے تحت یہ اختیار کانگریس کے پاس محفوظ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فرمان ایچ ون- بی پروگرام کو ایک ایسے نظام میں بدل دیتا ہے، جس میں آجروں کو یا تو ‘ادائیگی کر کے حصہ لینا’ ہوگا یا پھر ‘قومی مفاد’ کی بنیاد پر استثنیٰ حاصل کرنا ہوگا، جو ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری کی صوابدید پر دیا جائے گا، یہ ایک ایسا نظام ہے جو امتیازی سلوک اور بدعنوانی کے دروازے کھولتا ہے۔

مقدمے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرکاری ایجنسیوں نے نئے اقدامات نافذ کرنے سے قبل ضروری ضابطہ سازی کے عمل کی پیروی نہیں کی اور یہ بھی نہیں سوچا کہ اتنی بھاری فیسیں وصول کر کے جدت اور ترقی کو کس طرح روکا جائے گا۔