دنیا

کسی صورت بگرام ایئربیس امریکا کے حوالے نہیں کریں گے، طالبان

طالبان بگرام کا کنٹرول چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں، تاہم امریکی حکام کے ساتھ سفارتی مشن دوبارہ کھولنے کے معاملے پر بات چیت جاری ہے، ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد

طالبان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بگرام ایئربیس واپس لینے کے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی صورت بگرام ایئربیس کو امریکا کے حوالے نہیں کریں گے۔

خامہ نیوز پریس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسکائی نیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ’ افغان کسی بھی صورت میں اپنی سرزمین کسی کو نہیں دیں گے۔’

اسکائی نیوز ایشیا کی نامہ نگار کورڈیلیا لنچ کے مطابق ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی کہ طالبان بگرام ایئربیس کا کنٹرول چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں، تاہم امریکی حکام کے ساتھ سفارتی مشن دوبارہ کھولنے کے معاملے پر بات چیت جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ’ ہم نے اس مسئلے پر گفتگو کی ہے اور چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک سفارت خانے (کابل اور واشنگٹن) دوبارہ کھولیں۔’

اقتدار میں واپسی کے چار سال بعد بھی طالبان سفارتی طور پر تنہا ہیں، اور اب تک صرف روس نے ان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے، تاہم ذبیح اللہ مجاہد نے اس تاثر کو رد کیا کہ طالبان حکومت کو جواز یا قانونی حیثیت کے مسئلے کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ کئی ممالک نے نجی طور پر طالبان حکومت کو تسلیم کیا ہے، اگرچہ عوامی سطح پر اس کا اعلان نہیں کیا۔‘

بین الاقوامی تعلقات کی خواہش کے باوجود طالبان خواتین اور لڑکیوں پر سخت پابندیاں نافذ کیے ہوئے ہیں، لڑکیوں کے لیے ثانوی اور اعلیٰ تعلیم اب بھی ممنوع ہے، جبکہ خواتین کو زیادہ تر سرکاری اداروں اور صحت کے شعبے سمیت دیگر ملازمتوں سے روک دیا گیا ہے۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے طالبان کے دو اعلیٰ رہنماؤں، جن میں سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ بھی شامل ہیں، کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں، جن پر خواتین اور لڑکیوں کے منظم استحصال کے الزامات ہیں۔

جب ذبیح اللہ مجاہد سے اس پابندی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں اس حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کر سکتا،‘ حالانکہ طالبان پہلے کہہ چکے تھے کہ اسکولوں کی بندش عارضی ہے اور ’ اسلامی اصولوں‘ کے مطابق نئی پالیسی آنے کے بعد تعلیمی ادارے دوبارہ کھول دیے جائیں گے، لیکن چار سال گزرنے کے باوجود لاکھوں افغان لڑکیوں کے لیے اسکولوں کے دروازے اب تک بند ہیں۔

حال ہی میں افغانستان میں عوام کو 48 گھنٹے کے ملک گیر انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس سے بینکاری نظام مفلوج ہو گیا تھا، فضائی سروس متاثر ہوئی تھی اور شہری رابطے سے محروم ہو گئے تھے۔

طالبان کے ترجمان نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں وزارتِ مواصلات کی جانب سے کوئی باضابطہ اطلاع نہیں ملی،‘ تاہم ایک مقامی سروس فراہم کنندہ نے صارفین کو تصدیق کی کہ یہ تعطل حکومت کے حکم پر کیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بلیک آؤٹ کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سنسرشپ کی ایک دانستہ کارروائی ہے جس سے وہ خواتین اور لڑکیاں مزید متاثر ہوئیں جو آن لائن تعلیم اور گھروں سے کام پر انحصار کرتی ہیں۔