نقطہ نظر

مونسٹر سیریز: اپنے سفاک جرائم سے امریکی معاشرے کو بدلنے والا ایڈ گین کون تھا؟

خواتین کی کھال کے کپڑے اور بیلٹ اشارہ تھے کہ ایڈ گین کے گھر میں جو کچھ ہوا، وہ انسانی تاریخ کا ایسا ہولناک باب بنے گا جو امریکا اور دنیا میں کئی افراد کو جرائم کی جانب راغب کرے گا۔

یہ 1957ء کی بات ہے۔ امریکی ریاست وسکونسن کے مقامی ڈپٹی شیرف فرینک کی والدہ لاپتا ہوگئیں جوکہ ٹاؤن کا ہارڈ ویئر اسٹور چلاتی تھیں۔ اسٹور کی دیواروں پر خون کے چھینٹے دیکھنے کے بعد فرینک کو دکان کے پچھلے حصے میں ایک ڈبہ ملا جس پر ایک شخص کا نام لکھا ہوا تھا۔ شیرف کے ہمراہ فرینک متعلقہ شخص کے گھر پوچھ گچھ کے لیے جاتا ہے۔

گھر میں داخل ہونے پر دونوں کو ایک غیرمعمولی منظر کا سامنا کرنا پڑا۔ گھر میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر موجود تھے جبکہ کیڑوں کی بہتات تھی۔ بدبو کے باوجود دونوں گھر کا جائزہ لیتے ہیں اور شیرف کو چولہے پر پتیلے میں کچھ اُبلتا ہوا نظر آتا ہے۔ شیرف دیکھتا ہے کہ یہ دل ہے، جبکہ پاس ہی خون سے لت پت انتڑیاں موجود تھیں۔ شیرف کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ پولیس کی نفری طلب کرتا ہے۔

پولیس کا مکمل جائزہ ہولناک حقائق پر سے پردہ اٹھاتا ہے۔ گھر میں انسانی کھال سے بنی کرسیاں، کپڑے، بیلٹ، باسکٹ اور چہروں سے بنے ماسک موجود تھے۔ انہیں ڈائننگ ٹیبل پر انسانی کھوپڑی سے بنے پیالے ملے۔ ہڈیاں، دانتوں اور انسانی ناخن کے علاوہ گھر میں ایک ڈبے میں نسوانی اعضا موجود ہوتے ہیں کہ گویا جیسے انہیں محفوظ کیا گیا ہو۔

خواتین کے کپڑے اور بال اشارہ تھے کہ اس گھر میں جو کچھ ہوا ہے، وہ انسانی تاریخ کا ایسا ہولناک باب بن جائے گا جو امریکا اور دنیا میں کئی افراد کو جرائم کی دنیا کی جانب راغب کرے گا۔

اسی دوران فرینک اپنی ماں کی تلاش میں گھر کے احاطے میں واقع ایک فارم میں جاتا ہے جہاں اسے ایک انسانی دھڑ الٹا لٹکا ہوا ملا جس کا سر نہیں ہوتا جبکہ دھڑ کو بیچ سے ایسے کاٹا گیا تھا جیسے کسی نے مشین کی آری کا استعمال کیا ہو۔ فرینک پہچان لیتا ہے کہ یہ اس کی ماں ہے اور اس کی چیخ و پکار کے درمیان گھر کا مالک واپس آجاتا ہے۔

یہ شخص ایڈ گین تھا جس کے سفاک جرائم پر گزشتہ ہفتے نیٹ فلکس کی مونسٹر سیریز ریلیز ہوئی ہے جس میں مرکزی کردار ادا کرنے والے چارلی ہینم کی بےمثال اداکاری جبکہ پروڈیوسر ریان مرفی کی جانب سے حقائق کو کہانی کی صورت میں پیش کیے جانے نے دیکھنے والوں کو باور کروایا کہ حقیقی واقعات پر مبنی کہانیاں آج بھی صنفِ ہارر کی دنیا میں اپنی دھاک بٹھا رہی ہیں۔

تحریر میں آگے بڑھنے سے پہلے میں اسپائلر الرٹ دینا چاہوں گی مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہاں میں سیریز میں شامل حقیقی واقعات بیان کررہی ہوں جبکہ سیریز کس طرح اس شخص کی عکاسی کرتی ہے، اس پر ہم تحریر میں آگے چل کر بات کریں گے۔

ایڈ گین- پلین فیلڈ کا قصائی

مذہبی والدہ کے زیرِاثر رہنے والا ایڈ گین بچپن سے شرمیلا تھا اور اس کی آواز اور بھولے پن کی وجہ سے ٹاؤن کے لوگ اسے بہت شریف سمجھتے تھے۔ ناکام شادی کا شکار والدہ اوگسٹین ہمیشہ ایڈ کو کہتی تھیں کہ شادی صرف بچے پیدا کرنے کے لیے ہونی چاہیے اور وہ کبھی بھی شادی نہیں کرے گا کیونکہ وہ ’عجیب‘ بچہ ہے جس سے ’صرف اس کی ماں ہی پیار کرسکتی ہے‘۔ ماں اپنے علاوہ تمام عورتوں کو بدکردار سمجھتی تھی۔

ایڈ اپنی ماں کو ہی اپنی دنیا سمجھتا تھا۔ اس کی خوشنودی کے لیے سب کرتا تھا۔ ایڈ کا 43 سالہ بڑا بھائی ہینری ایک طلاق یافتہ لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن ماں کی مخالفت کی وجہ سے وہ اپنے بھائی ایڈ سے اکثر ماں کی برائی کرتا تھا۔

ایک دن ماں کی برائی سن کر ایڈ کو غصہ آجاتا ہے اور وہ ہینری کے سر پر لکڑی کا وار کرکے اسے قتل کردیتا ہے اور اس کی لاش جھاڑیوں میں لگی آگ میں پھینک کر خود پولیس کو اطلاع دیتا ہے اور سب سمجھتے ہیں کہ ہینری کی موت دم گھٹنے سے ہوئی ہے۔ ایڈ کی ماں کو ہینری کی موت کا شدید دکھ ہوتا ہے اور اسے فالج ہوجاتا ہے۔

کچھ عرصے بعد اوگسٹین کا انتقال ہوجاتا ہے جو ایڈ کے لیے شدید صدمہ تھا۔ اسے اکیلے گھر میں اپنی ماں کی آوازیں سنائی دینے لگیں جو اس سے کہتی ہے کہ وہ اسے قبر سے نکال لائے۔ وہ کھدائی کرکے کوشش کرتا ہے لیکن وہ برابر والی قبر سے عورت کی لاش گھر لے آتا ہے اور اسے ماں کی کرسی پر بٹھا دیتا ہے جس میں وہ اپنی ماں کا روپ دیکھتا ہے اور اس سے باتیں کرتا ہے۔ اس کی نظر میں اس کی ماں زندہ ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ، وہ اس قدر اپنی ماں کے زیرِاثر تھا کہ اپنی ماں کی عمر کی خواتین جو اس کی ماں کی طرح مذہبی یا اس کی ماں کے نزدیک اچھی انسان نہیں تھیں، انہیں قتل کرنے لگتا ہے۔ ان میں مقامی پب میں کام کرنے والی میری اور فرینک کی والدہ برنیس شامل تھیں۔ اس کے علاوہ اس نے 14 سالہ بیبی سٹر لڑکی ایویلین کو بھی قتل کیا جبکہ ان دو شکاری مردوں کو بھی قتل کیا جو بھٹک کر اس کے گھر آگئے تھے اور انہوں نے برنیس کی لاش کو دیکھ لیا تھا۔

انسانی کھال اور دیگر لرزہ خیز جرائم

یہ دور دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کا تھا جہاں ایسے جریدے چھاپے جاتے تھے جن میں یہودیوں کے قتل کرنے والوں کو ہیرو کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔ ان میں سے ایک عورت ایلسی کوچ تھی جو نازی حکومت کی قید میں موجود یہودی غلاموں کی لاشوں کی کھال اتار کر اس سے لیمپ، کرسی، بیلٹ و دیگر چیزیں بناتی تھی۔ اس کی کامک بک سے ایڈ اس قدر متاثر ہوگیا کہ وہ مُردوں کی لاشیں نکال کر ان کی کھال اتارتا اور اس سے چیزیں بنانے لگا جس میں کھوپڑی سے بنے پیالے اور ایش ٹرے شامل تھیں۔

ایلسی کو ہیرو مانتے ہوئے وہ بھی انسانی ماسک اور کپڑے بناتا جبکہ اس نے کھال اتارنے کا طریقہ اور اسے محفوظ کرنا بھی اسی سے سیکھا تھا۔

دوسری جنگِ عظیم ختم ہونے کے بعد ایلسی کا ٹرائل ہوا مگر اس نے ان تمام الزامات کو جھوٹ قرار دیا اور وہ کہتی تھی کہ کوئی بھی انسان ایسا گھناؤنا فعل نہیں کرسکتا۔ تاہم اس نے یہودیوں کے قتل عام کو جائز قرار دیا تھا۔

ایڈ گین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے یہ فعل اس لیے کیا کیونکہ اس کی ماں نے اسے عورت ذات سے دور رہنے کو کہا تھا جس کی وجہ سے وہ کبھی ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم نہیں کرپاتا تھا۔ لہٰذا عورت کی جلد اور چہرے پر ماسک لگا کر اسے لگتا تھا جیسے وہ عورت ہے اور یہ اس کی جنسی تسکین کا ذریعہ تھا۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ٹرانسجینڈر ہے لیکن وہ نہیں تھا۔ تاہم اس نکتے پر یہی لگا کہ شاید ریان مرفی ایک ٹرانسجینڈر کو قاتل کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہ رہے ورنہ لگتا یہی تھا کہ ایڈ گین عورت بننا چاہتا تھا۔

گرفتاری اور ٹرائل

ڈپٹی شیرف کی والدہ کے قتل میں ایڈ گین کو گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس کو ایڈ کے گھر میں برنیس کا کٹا ہوا سر بھی ملا۔ تفتیش میں اس نے اعتراف کیا کہ اس نے 9 قبروں سے لاشوں کو نکالا تاہم اس نے لوگوں کو قتل کرنے سے انکار کیا۔ اس پر 9 افراد کے قتل کا الزام تھا جن میں سے دو ثابت ہوئے جبکہ بقیہ 7 نہ ثابت ہوئے اور نہ اس نے اعتراف کیا۔

وہ کہتا تھا کہ اسے یاد نہیں کہ اس نے ان لوگوں کو قتل کیا تھا یا نہیں۔ جھوٹ پکڑنے والے آلات بھی کچھ ثابت نہ کرسکے۔ خراب ذہنی حالت کے باعث اس کا ٹرائل بھی نہ ہوسکا جبکہ عدالت نے اسے نقسیاتی ہسپتال میں نظربند کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے شیزوفرینیا کا علاج ہوا جس کے بعد 1968ء میں اس کا ٹرائل بھی ہوا اور اس پر برنیس کا قتل ثابت ہوا۔ اسے سزا بھی دی گئی لیکن ذہنی بیماری کے باعث اسے ہسپتال میں ہی رکھنے کا فیصلہ دیا گیا۔ سانس کی تکلیف کے بعد 1984ء میں وہ اس کی نفسیاتی ہسپتال میں موت ہوئی۔ اس کی موت کا سبب پھیپھڑوں کا کینسر تھا۔

1958ء میں یعنی ایڈ گین کی گرفتاری کے ایک سال بعد، اس کے گھر اور فارم میں موجود سامان کی نیلامی کا فیصلہ کیا گیا اور لوگوں کی بڑی تعداد نے دلچسپی ظاہر کی جس نے امریکی معاشرے کے بدلتے اور تشویش ناک رجحان کی نشاندہی کی جہاں لوگ قاتلوں سے متاثر ہونے لگے تھے۔

البتہ جس دن نیلامی ہونی تھی، اس دن پولیس کو اطلاع ملی کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی ہے۔ جان بوجھ کر آگ لگائے جانے کے بارے میں شکوک ظاہر کیے گئے لیکن یہ کبھی ثابت نہیں ہوسکا۔

سالوں اس کی قبر پر لگے کتبے پر لوگوں نے نامناسب الفاظ لکھے، اس کے ٹکڑے چوری کیے اور پھر بلآخر اس کے کتبے کو جگہ سے اکھاڑ کر چوری کرلیا گیا۔ اب اپنے بھائی اور ماں کے پاس مدفون ایڈ گین کی قبر پر کوئی کتبہ نہیں ہے۔

مونسٹر - ایڈ گین اسٹوری

17 افراد کو قتل اور انسانی گوشت کھانے والے بدنامِ زمانہ سیریل کلر جیفری ڈاہمر کی کہانی سے شروع ہونے والی مونسٹر سیریز کے تیسرے حصے میں ایڈ گین کے سفاک جرائم کو عکاس کیا گیا ہے۔ ریان مرفی کی یہ سیریز جمعے کو ریلیز ہوئی ہے جبکہ پاکستان سمیت 60 سے زائد ممالک میں ٹرینڈنگ پر ہے۔

اس سیریز میں عکس بند کیا گیا ایڈ گین کا کردار چارلی ہینم نے ادا کیا ہے بلکہ ادا کرنا کہنا ان کی جاندار ایکٹنگ کے ساتھ ناانصافی ہوگی کیونکہ انہوں نے خود کو اس کردار میں ڈھال لیا گویا کہ وہ شوٹنگ کے دوران خود کو واقعی ایڈ گین سمجھ بیٹھے۔

ظاہری شخصیت سے لے کر آواز تک، انہوں نے جس طرح ایڈ گین کی نقل کی ہے، اس نے دیکھنے والوں پر لرزہ طاری کیا۔ کہا جارہا ہے کہ اس کردار کے لیے انہوں نے 30 پاؤنڈ وزن کم کیا اور فلمنگ ختم ہونے کے بعد وہ ایڈ گین کی قبر پر اسے الوداع بھی کہنے گئے جبکہ ایک ہفتے تک وہ تنہائی میں رہے تاکہ اس کردار سے خود کو آزاد کرسکیں۔

ایک انٹرویو میں چارلی نے کہا کہ اس سیریز کا مقصد اسے ایک قاتل کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے انسان کے طور پر پیش کرنا تھا جس کے اندر ایک حیوان رہتا ہے اور وہ چاہ کر بھی اپنے ذہن کی آوازوں کو خاموش نہیں کرسکتا۔

اداکاری دیکھ کر لگتا نہیں کہ حقیقی انسان سے مشابہت اس قدر ممکن ہے۔ انہیں ابھی سے ہی اگلے ایمی ایوارڈ جیتنے کے لیے پسندیدہ قرار دیا جارہا ہے۔

انسانی کھال سے لے کر چین ساو (مشین کی آری) سے قتل تک، اس فلم نے جس طرح ان مناظر کو عکس بند کیا ہے، اسے دیکھنے والے کچھ عرصے تک اس کے خوف سے نہیں نکل پائیں گے۔

ہاں یہ بات دیکھنے والوں کو سمجھنی چاہیے کہ یہ کوئی دستاویزی سیریز نہیں ہے جس میں واقعات کو ویسا ہی بیان کیا جائے جیسے وہ حقیقت میں رونما ہوئے ہیں۔ یعنی اگر اس سیریز میں ڈرامائی انداز میں مناظر دکھائے گئے ہیں تو ان میں کی گئی تبدیلیوں کو بھی ہمیں قبول کرنا ہوگا۔

اس سیریز میں ایک اور اہم کردار ایڈیلین (سوزین سن) کا ہے جسے ایڈ گین پسند کرتا تھا اور وہ اس کی بہت پرانی دوست تھی لیکن ایڈ کی ماں نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس سے شادی کرے کیونکہ ماں کے نزدیک وہ بری عورت تھی۔ ایڈیلین خود بھی ذہنی مریضہ تھی جسے بگڑے ہوئے چہروں والی لاشوں کی تصاویر لینا پسند تھا اور وہ کرائم فوٹوگرافر بننا چاہتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ایڈ کے جرائم پتا ہونے کے باوجود وہ خاموش رہی اور قبر سے لاش نکالنے میں اس کی حوصلہ افزائی کرتی رہی۔ تاہم ایڈ کی گرفتاری کے بعد اس نے ایڈ سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور اسے جرم چھپانے کی کوئی سزا نہیں ملی۔

مجھے سیریز سے ایک اختلاف ہے۔ سیریز کی اختتامی دو اقساط میں ایڈ گین کو ایک مظلوم دماغی مریض کے طور پر دکھایا گیا ہے جوکہ شیزو فرینیا کا شکار ہے اور نہیں جانتا کہ اس نے لاشعوری میں کیا کیا ہے۔ علاج کے بعد جب وہ بہتر ہوتا ہے تو اسے کسی ہیرو کی طرح دکھایا گیا ہے جس نے دیگر سیریل کلر پکڑنے میں ایف بی آئی کی مدد کی۔ اس سلسلے میں دکھایا گیا ہے کہ ایڈ نے ٹیڈ بنڈی کو پکڑنے میں مدد کی۔ اب اس میں کتنی سچائی ہے، اس حوالے سے کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم سیریز میں یہی لگتا ہے کہ یہ اس کے ذہن کا تخیل ہے۔

لیکن ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس سیریز کو ایڈ کے نظریے سے دکھایا گیا ہے کیونکہ جب اس کا وقت مرگ قریب ہوتا ہے تو وہ خود کو ایک ہیرو سمجھتا ہے جس نے دنیا میں دیگر لوگوں کو متاثر کیا اور خواب میں اس کی ماں اس پر فخر کرتی ہے جس نے دنیا میں گین خاندان کا نام مشہور کیا۔

اس کے علاوہ سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ اس نے ایک عورت کی لاش کو قبر سے نکال کر اپنی ماں کی کرسی پر بٹھایا رکھا لیکن حقیقی واقعات ایسے نہیں۔

مزید یہ کہ سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ اس نے قبر سے نکالی ہوئی لاش کا جنسی استحصال کیا لیکن حقائق کہتے ہیں کہ اس نے کبھی بھی لاشوں کے ساتھ بدفعلی نہیں کی اور اس نے خود اس سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ ان سے شدید بدبو آتی تھی۔ جبکہ اپنی ماں کی آواز کی تعمیل کرتے ہوئے وہ لاشوں کی کھال و دیگر اعضا نکالنے اور کچھ عرصے بعد ان کی ہڈیوں کو واپس قبر میں ڈال کر قبر کو بند کردیتا تھا۔

اس سیریز میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ایڈ گین کے گھر سے انسانی دل پتیلے میں ابلتے ملے تھے لیکن تفتیش میں اس نے انسانی گوشت کھانے سے انکار کیا۔ تاہم یہ دکھایا گیا ہے کہ اس نے اپنے دوستوں کو ہرن کا گوشت کہہ کر انسانی گوشت دیا تھا جسے انہوں نے کھایا بھی تھا۔

یہ مشہور ہے کہ ولن بنتے نہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ ایڈ گین کی ماں نے بچپن سے اسے اتنا زیرتسلط رکھا کہ وہ اپنی کُل دنیا اپنی ماں کو سمجھ بیٹھا۔ اسے لگتا تھا کہ اس دنیا میں ماں کے علاوہ کوئی مخلص نہیں اور کوئی اس سے محبت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ جب اس کی ماں کا انتقال ہوا تو وہ اسے قبول نہیں کرپایا اور مردے کو قبر سے لا کر اپنے ماں کے کپڑے پہنا کر اسے اپنی ماں سمجھ کر باتیں کرتا رہا۔

سیریز میں ایف بی آئی کے ایجنٹس جب ٹیڈ بنڈی کا سراغ لگانے میں مدد کے لیے ایڈ گین کی مدد لینے گئے تو وہ کہتا ہے کہ ’یہ قاتل بھی تنہائی کا شکار ہے، تنہائی انسان سے بہت غلط کام کرواتی ہے‘۔ جو واضح طور پر اشارہ تھا کہ اپنی ماں کی موت کے بعد وہ تنہائی کا شکار تھا اور اسی نے اسے ذہنی مریض بنایا۔

اس سیریز کا ایک اور بہترین سین جس نے ناظرین کو چارلی ہینم کی اداکاری کا مداح بنایا، وہ ایڈ گین کی اپنی سائیکولوجسٹ سے گفتگو تھی جس میں اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ شیزوفرینیا کا شکار ہے۔ وہ خوب روتا ہے اور کہتا ہے تب ہی اس کی ذہن کی آوازیں اس سے قتل کرنے کو کہتی ہیں اور وہ سمجھتا تھا کہ شیطان اس سے غلط کام کرنے کا کہتا ہے۔ مجموعی طور پر یہی وہ سین ہے جس نے انہیں ایمی کے لیے مضبوط امیدوار بنایا ہے۔

ایڈ گین جس نے کروڑوں کو متاثر کیا

امریکا میں ایڈ گین سیریل کلر کے طور پر نہیں بلکہ وہ انسانی لاشوں کے ساتھ جو کرتا تھا، وہی اس کی وجہ شہرت بنی۔ اسے ’پلین فلیڈ کے قصائی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس کے جرائم سے متاثر ہوکر متعدد امریکی فلمیں بنائی گئیں۔ جس طرح ایڈ گین انسانی چہرے کی کھال اتار کر اسے ماسک کی صورت پہنا کرتا تھا، اس سے متاثر فلم ’لیدر فیس‘ (2017ء) بنائی گئی۔ جس طرح وہ خواتین کی کھال سے بنے کپڑے پہن کر ناچتا تھا، اسے ’سائلنس آف لیمبس‘ (1991ء) میں عکس بند کیا گیا۔

اس کے علاوہ مشہور زمانہ فلم سیریز ’سائیکو‘ (1960ء، 1983ء، 1986ء) کے مرکزی کردار نورمین بیٹس بھی ایڈ گین سے متاثر تھا۔ ’ٹیکسس چین ساؤ میسیکر‘ جس میں ایک انسانی کھال کا ماسک پہنے شخص کو میشن کی آری سے لوگوں کو قتل کرتے دکھایا گیا، یہ بھی ایڈ گین سے متاثر ہے جو اسی طرح لوگوں کو قتل کیا کرتا تھا۔

ایڈ گین نے امریکا کے معاشرے کو تبدیل کیا۔ 1950ء کی دہائی میں جب اس کی ہولناکیاں سامنے آئیں تو اس کے قصوں نے دیگر افراد کو جرائم کرنے پر راغب کیا۔ 30 سے زائد نوجوان لڑکیوں کا قاتل ٹیڈ بنڈی، نرسوں کو قتل کرنے والے ریچرڈ اسپیک سے متاثر تھا جبکہ رچرڈ ایڈ گین کو اپنا پسندیدہ بتاتا تھا، اس کے نزدیک ذہنی مریض کا ناٹک کرکے وہ ٹرائل سے بچ گیا تھا۔

اس کے علاوہ ایڈورڈ کیمپر نے بھی ایڈ گین سے متاثر ہوکر قتل کئے اور وہ کہتا تھا کہ اسے ایڈ گین کے خواتین کے سروں کو اسٹیک پر سجانے کے بیان نے متاثر کیا۔ ایڈ کیمپر نے اپنی والدہ، نانا نانی سمیت 10 افراد کو قتل کیا اور ایڈ گین کی طرح ان کے ٹکڑے کیے تھے۔

اس کے علاوہ جان وین گیسی جو 33 افراد کے قتل کا مجرم تھا، وہ بھی خود کو ایڈ گین کا مداح بتاتا تھا۔

تو یوں کہا جاسکتا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے 1957ء کے دوران ایڈ گین کے لرزہ خیز جرائم نے امریکا کو کافی حد تک تبدیل کیا۔ اس سے قبل امریکا میں سیریل کلر پر مبنی ہارر کلاسک فلمیں نہیں بنا کرتی تھیں، لوگ انہیں دیکھ کر ڈرتے تھے لیکن پھر الفریڈ ہچکوک کی سائیکو کے بعد جب ایسی فلمیں بننے لگیں تو فلم بینوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا اور لوگ ایسے کرداروں سے متاثر ہونے لگے اور انہیں سنیما کے پردے پر دیکھنا پسند کرنے لگے جوکہ درحقیقت تاریخ کے سیاہ باب کا حصہ، ایڈ گین سے متاثر تھے۔

حرفِ آخر

کمزور دل کے افراد کو میں یہ سیریز دیکھنے کی ترغیب ہرگز نہیں دوں گی۔ حتیٰ کہ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ جب رات میں سونے کے لیے آنکھیں بند کریں گے تو آپ چاہے کتنے ہی بہادر کیوں نہ ہوں، عورت کی کھال کا ماسک پہنے ایڈ گین کا کردار ضرور ذہن کے پردے پر اُبھرے گا۔

کوئی معاشرہ پاک نہیں ہوتا، ہر معاشرے میں اچھے اور برے کردار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے اندر برائی لے کر پیدا نہیں ہوتا، اچھے یا برے کا انتخاب اس کا اپنا اختیار ہوتا ہے۔ جس طرح ہولوکاسٹ نے ایڈ گین کو متاثر کیا اور ایڈ گین نے دیگر مجرمان کو، لرزہ خیز جرائم اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ ایک معاشرے کو اپنے زیراثر کرسکتے ہیں۔

اس تحریر کا مقصد کسی سفاک مجرم کی کہانی کو دلچسپ انداز میں سنانا نہیں، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ایسے خوفناک جرائم دنیا اور انسانوں پر کتنے خطرناک اثرات ڈالتے ہیں۔

خولہ اعجاز

خولہ اعجاز ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔